اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 28 اگست، 2015

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ۔ نعتیہ کلام مولانا الطاٖ ف حسین حالی

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
مولاناالطاف حسین حالی

کہنا بڑوں مانو ۔ مولانا الظاف حسین حالی

کہنا بڑوں مانو
اے بھولے بھالے بچو، نادانو، ناتوانو
سر پر بڑوں کا سایہ، سایہ خدا کا جانو
حکم ان کا ماننے میں برکت ہے، میری مانو
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ اور استاد، سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی، حق میں تمہارے نعمت
کڑوی نصیحتوں میں ان کی بھرا ہے امرت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ کا عزیزو، مانا نہ جس نے کہنا
دشوار ہے جہاں میں عزت سے اس کا رہنا
ڈر ہے پڑے نہ صدمہ ذلت کا اس کو سہنا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
دنیا میں کی جنہوں نے ماں باپ کی اطاعت
دنیا میں پای عزت، عقبی میں پای راحت
ماں باپ کی اطاعت ہے دو جہاں کی دولت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
تم کو نہیں خبر کچھ اپنے برے بھلے کی
جتنی ہے عمر چھوٹی اتنی ہے عقل چھوٹی
ہے بہتری اسی میں جو ہے بڑوں کی مرضی
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ہے کوی دن میں پیارو وہ وقت آنے والا
دنیا کی مشکلوں سے تم کو پڑے گا پالا
مانے گا جو بڑوں کی جیتے گا وہ ہی پالا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت . مولانا الظاف حسین حالی

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت
واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت
رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت

جمعرات، 27 اگست، 2015

ایک سبق آموز تحریر جو آپ کو ہمیشہ یاد رہے گی

آج کی بات : اسے توجہ سے پڑھیں!
ایک بار 50 لوگوں کےگروپ نے ایک سیمینار میں شرکت کی،
اچانک ﻣﻘﺮﺭ خاموش ہوگیا، اور ایک گروپ ایکٹیویٹی کرنے کا کہا گیا،ہر ایک کو ایک غبارہ دیا گیا،
اور مارکر کا استعمال کرتے ہوئے اس پر اپنا نام لکھنے کو کہا گیا،
اس کے بعد سارے غبارے ایک کمرے میں ڈال دئیے گئے،
اس کےبعد سب کو پانچ منٹ کےاندر اندر اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈنے کو کہا گیا،
سب لوگ بدحواسی میں ادھر ادھر اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگے،
کچھ لوگوں کے نام والے غبارے دوسروں کے پاؤں کے نیچے آکر پھٹ گئے،
مگر کوئی بھی اپنا مطلوبہ غبارہ تلاش نہ کر سکا،
پھر دوباره یہی عمل دهرايا گیا لیکن اس دفعہ ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی بھی غبارہ لیں اور اس کے نام والے شخص کو دے دیں،
فقط چند منٹوں میں سب لوگوں کے پاس اپنے نام والا غبارہ موجود تھا،
ﻣﻘﺮﺭ نے سب کو مخاطب کیا اور کہا ،
بالکل اسی طرح ہماری زندگی ہے، ہم بدحواسی میں اپنی خوشیاں ڈھونڈھتے ہیں، اس افراتفری اور آپا دھڑاپی میں ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم دوسروں کی خوشیاں اپنے پاؤں تلے کچلتے چلے جاتے ہیں،
ہم لوگ یہ نہیں سمجھتے ہماری خوشیاں دوسروں کی خوشیوں سے وابستہ ہیں،
دوسروں کو ان کی خوشیاں دے دیں تو ہمیں با آسانی ہماری خوشیاں مل سکتی ہیں، اور یہ ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے

بدھ، 19 اگست، 2015

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا . کلام حسرت موہانی

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا
محبت کا یہ بھی ہے کوئی قرینا

وہ کیا قدر جانیں دل ِ عاشقاں کی
نہ عالم، نہ فاضل، نہ دانا، نہ بینا

وہیں سے یہ آنسو رواں ہیں، جو دل میں
تمنا کا پوشیدہ ہے اک خزینا

یہ کیا قہر ہے ہم پہ یارب کہ بے مے
گزر جائے ساون کا یوں ہی مہینا

بہار آئی سب شادماں ہیں مگر ہم
یہ دن کیسے کاٹیں گے بے جام و مینا​
 

منگل، 18 اگست، 2015

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ۔ کلام مولانا حسرت موہانی

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے
بار بار اُٹھنا اسی جانب نگاہ ِ شوق کا 
اور ترا غرفے سے وُہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا 
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
جان کرسونا تجھے وہ قصد ِ پا بوسی مرا 
اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
حال ِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر ِ فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بُلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے،تیرا بلانا یاد ہے
میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں،پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے
شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مِرا وہ چھیڑنا، گُدگدانا یاد ہے
با وجودِ ادعائے اتّقا حسرت مجھے
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانا یاد ہے
(مولانا حسرت موہانی)

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا ۔ کلام داغ دہلوی

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کرینگے ،نباہینگے، بات مانینگے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بیدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ تاچھ تھی کسی کی وہاں نہ آو بھگت
تمہاری بزم میں کل ایہتمام کس کا تھا
انھیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف آپ ہی کرتے تو نام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرا نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں
خیال میرے دل کو صبح وشام کس کا تھا
اگرچہ دیکھنے والے تیرے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیرے بام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بےوفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

یہ دِل یہ پاگل دِل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی ۔۔ کلام محسن نقوی

یہ دِل یہ پاگل دِل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اِس دشت میں اِک شہر تھا وہ کیا ہُوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تُو کون ہے اُس نے کہا 146آوارگی
لوگو بھلا اُس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے اپنی سُنا آوارگی
اِک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر مَیں نے لکھا آوارگی
اُس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمانِ وفا
اِس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی
کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا مَیں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

کبهی کتابوں میں پهول رکهنا، کبهی درختوں په نام لکهنا ۔ کلام حسن رضوی

کبهی کتابوں میں پهول رکهنا، کبهی درختوں په نام لکهنا
ہمیں بهی ہے یاد آج تک وه نظر سے حرف سلام لکهنا
وه چاند چہرے، وه بہکے باتیں، سلگتی دن تهے، مہکتی راتیں
وه چهوٹے چهوٹے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکهنا
گلاب چهروں سے دل لگانا، وه چپکے چپکے نظر ملانا
وه آرزؤں کے خواب بننا، وه قصه ناتمام لکهنا
گئی رتوں میں "حسن" ہمارا، بس ایک ہی تو یه مشغله تها
کسی کے چہرے کو صبح کهنا، کسی کے زلفوں کو شام لکهنا
میری نگر کے فضاؤ کہیں جو ان کا نشان پاؤ
تو پوچهنا یه کہاں بسی ہو، کهاں ہے ان کے قیام لکهنا

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا ۔ نغمہ نگار اند بخشی

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
مری آورگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا

بڑا دلکش، بڑا رنگین ہے یہ شہر کہتے ہیں
یہاں پر ہیں ہزاروں گھر، گھروں میں لوگ رہتے 
مجھے اس شہر میں گلیوں کا بنجارہ بنا ڈالا

میں اس دنیا کو اکثر دیکھ کر حیران ہوتا ہوں
نہ مجھ سے بن سکا چھوٹا سا گھر دن رات روتا ہوں
خدایا تونے کیسے یہ جہاں سارا بنا ڈالا

مرے مالک مرا دل کیوں تڑپتا ہے، سلگتا ہے
تری مرضی، تری مرضی پہ کس کا زور چلتا ہے
کسی کو گل کسی کو تو نے انگارہ بنا ڈالا

یہی آغاز تھا میرا، یہی انجام ہونا تھا
مجھے برباد ہونا تھا، مجھے ناکام ہونا تھا
مجھے تقدیر نے تقدیر کا مارا بنا ڈالا

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
مری آورگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا