غزلیات
مولانا حسرت موہانی پیر نصیرالدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ
محسن نقوی
غزل
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
... کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں
(علامہ ڈاکٹر محمد اقبال)
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
... کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں
(علامہ ڈاکٹر محمد اقبال)
ھم نے یاد کیا بہت اسے بھلانے کے بعد
وہ پھر روٹھ گیا ھم سے منانے کے بعد
اس کے دل میں تھی عداوت میرے لیے
...
میں تو حوش تھا اسے اپنانے کے بعد
پہلے تو کرتا تھا بہت پیار کی باتیں
پھر رولایا بھی بہت اس نے مجھے ہنسانے کے بعد
محبت کرتا تھا وہ مجھ سے وقت گزاری کیلئے
اپنا لیا کسی اور کو اس نے مجھے ٹھکرانے کے بعد
کوئ کسی کا نہں بنتا اس دنیا میں اے دوست
درخت بھی گرا دیتے ھیں لوگ پتے سوکھ جانے کے بعد
محسن نقوی
وہ پھر روٹھ گیا ھم سے منانے کے بعد
اس کے دل میں تھی عداوت میرے لیے
...
میں تو حوش تھا اسے اپنانے کے بعد
پہلے تو کرتا تھا بہت پیار کی باتیں
پھر رولایا بھی بہت اس نے مجھے ہنسانے کے بعد
محبت کرتا تھا وہ مجھ سے وقت گزاری کیلئے
اپنا لیا کسی اور کو اس نے مجھے ٹھکرانے کے بعد
کوئ کسی کا نہں بنتا اس دنیا میں اے دوست
درخت بھی گرا دیتے ھیں لوگ پتے سوکھ جانے کے بعد
محسن نقوی
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
اب کی فصلِ بہار سے پہلے
رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ
کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو
... جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ
دل ترے بعد سو گیا ورنہ
شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ
(ناصر کاظمی)
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
اب کی فصلِ بہار سے پہلے
رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ
کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو
... جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ
دل ترے بعد سو گیا ورنہ
شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ
(ناصر کاظمی)