اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

منگل، 20 مارچ، 2012

Allama Iqbal POETRY



************
چين و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہيں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحيد کي امانت سينوں ميں ہے ہمارے
...
آساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنيا کے بت کدوں ميں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہيں، وہ پاسباں ہمارا
تيغوں کے سائے ميں ہم پل کر جواں ہوئے ہيں
خنجر ہلال کا ہے قومي نشاں ہمارا
مغرب کي واديوں ميں گونجي اذاں ہماري
تھمتا نہ تھا کسي سے سيل رواں ہمارا
باطل سے دنبے والے اے آسماں نہيں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اے گلستان اندلس! وہ دن ہيں ياد تجھ کو
تھا تيري ڈاليوں پر جب آشياں ہمارا
اے موج دجلہ! تو بھي پہچانتي ہے ہم کو
اب تک ہے تيرا دريا افسانہ خواں ہمارا
اے ارض پاک! تيري حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تري رگوں ميں اب تک رواں ہمارا
سالار کارواں ہے مير حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقي آرام جاں ہمارا
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گويا
ہوتا ہے جادہ پيما پھر کارواں ہمارا

**
ایک مکڑا اور مکھی
ماخوذ - بچوں کے لیے

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
... لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا ، پھر نہیں اترا
مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا
اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا!
اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
مکھی نے کہا خیر ، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں ، یہ امید نہ رکھنا
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا
مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی !
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا
ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا
See more
****


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں