کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں
یہ گیسوئوں کی گھنی چھاؤں ہیں میری خاطر
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں
کے جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی
میں جانتا ہوں تو غیر ہے مگر یوں ہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے . . . !
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے (اصل نظم)
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری
انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں
یہ گیسوئوں کی گھنی چھاؤں ہیں میری خاطر
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں
کے جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی
میں جانتا ہوں تو غیر ہے مگر یوں ہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے . . . !
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے (اصل نظم)
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری
انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں