اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

پیر، 7 ستمبر، 2015

درد پھیل جائے تو ۔ امجد اسلام امجد کی خوبصورت نظم

درد پھیل جائے تو

درد پھیل جائے تو
ایک وقت آتا ہے
دل دھڑکتا رہتا ہے
آذردگزیدوں کے حوصلے نہیں چلتے
دشتِ بے یقینی میں آسرے نہیں چلتے
رہرئوں کی آنکھوں میں
منزلیں نہ جب تک ہوں ، قافلے نہیں چلتے
اک ذرا توجہ سے دیکھئے تو کُھلتا ہے
لوگ اِن پہ چلتے ہیں ، راستے نہیں چلتے
سوچنے ، سمجھنے سے ، ساتھ ساتھ چلنے سے
دوریاں سمٹتی ہیں ، فاصلے نہیں چلتے
خواب خواب آنکھوں میں رتجگے نہیں چلتے
درگُزر کے حلقے میں مسئلے نہیں چلتے
دو دِلوں کی قربت میں تیسرا نہیں ہوتا
''واسطے نہیں چلتے
بخت ساتھ چلتا ہے ، طابع آزمائوں کے
وقت رام کرنے میں ، تجزیوں کے دائو کیا
''تجربے نہیں چلتے
عشق کے علاقے میں ، حُکمِ یار چلتا ہے
ضابطے نہیں چلتے
حُسن کی عدالت میں ، عاجزی تو چلتی ہے
مرتبے نہیں چلتے
دوستی کے رشتوں کی پرورش ضروری ہے
سلسلے تعلق کے خود سے بن تو جاتے ہیں
لیکن اِن شگوفوں کو ٹوٹنے بکھرنے سے 
روکنا بھی پڑتا ہے
چاہتوں کی مٹی کو ، آرزو کے پودوں کو
سینچنا بھی پڑتا ہے
رنجشوں کی باتوں کو ، بھولنا بھی پڑتا ہے

امجد اسلام امجد

اگر کبھی میری یاد ائے . امجد اسلام امجد کی نظم ۔ محبت کی ایک نظم

محبت کی ایک نظم
اگر کبھی میری یاد ائے
تو چاند راتوں کی دِلگیر روشنی میں
کِسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمہارے قدموں میں آ گِرے تو
یہ جان لینا
وہ استعارہ تھا میرے دِل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کِس طرح ہے
کہ تم کِسی پر نگاہ ڈالو
تو اُس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یادآئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوئوں میں تمہیں مِلوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اَوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں مِلوں گا
اگر ستاروں میں، اوس قطروں میں ، خوشبوئوں میں نہ پائو مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں مِلوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بِکھر چُکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اُن پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کِسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رُک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو اُس جزیرے پہ بھی اُترنا
اگر کبھی میری یاد آئے۔۔۔

امجد اسلام امجد
امجد اسلام امجد کی خوبصورت نظم درد پھیل جائے تو کلک کریں

جمعہ، 4 ستمبر، 2015

حسنِ مہ، گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے .. مرزا اسد اللہ خاں غالب

حسنِ مہ، گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے

بوسہ دیتے نہیں، اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے

اور بازار سے لے آئے ،اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے ،مرا جامِ سفال، اچّھا ہے

بے طلب دیں، تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا ،جس کو نہ ہو خوئےسوال، اچّھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے

دیکھیے ،پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے، کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو، کمال اچّھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے

خضر سلطاں کو رکھے، خالقِ اکبر، سر سبز
شاہ کے باغ میں، یہ تازہ نہال اچّھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت، لیکن
دل کے خوش رکھنے کو ،غالب ،یہ خیال اچّھا ہے

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہوگی ۔ نواب داغ دہلوی DAGH DEHLVI

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہوگی
خدا کے سامنے جب میری آپ کی ہوگی

تمام عمر بسر یوں ہی زندگی ہوگی
خوشی میں رنج کہیں رنج میں خوشی ہوگی

وہاں بھی تجھ کو جلائیں گے، تم جو کہتے ہو
خبر نہ تھی مجھے جنت میں آگ بھی ہوگی

تری نگاہ کا لڑنا مجھے مبارک ہو
یہ جنگ و ہ ہے کہ آخر کو دوستی ہوگی

سلیقہ چاہئے عادت ہے شرط اس کے لیئے
اناڑیوں سے نہ جنت میں مے کشی ہوگی

مزا ہے اُن کو بھی مجھ کو بھی ایسی باتوں کا
جلی کٹی یوں ہی باہم کٹی چھنی ہوگی

ہمارے کان لگے ہیں تری خبر کی طرف
پہنچ ہی جائے گی جو کچھ بُری بھلی ہوگی

مجھے ہے وہم یہ شوخی کا رنگ کل تو نہ تھا
رقیب سے تری تصویر بھی ہنسی ہوگی

ملیں گے پھر کبھی اے زندگی خدا حافظ
خبر نہ تھی یہ ملاقات آخری ہوگی

رقیب اور وفا دار ہو، خدا کی شان
بجا ہے اُس نے جفا پر وفا ہی کی ہوگی

بہت جلائے گا حوروں کو داغ جنت میں
بغل میں اُس کی وہاں ہند کی پری ہوگی

نواب داغ دہلوی

گل کو شبنم سے آگ لگ جائے


جمعرات، 3 ستمبر، 2015

سرمے کا تل لگا کے رخِ لاجواب پہ ۔ گلدستہءِ اشعار

http://urdu-poet.blogspot.no/

تمہارے خظ میں نیا اک سلام کس کا تھا ۔ گلدسہ ءِ اشعار

تمہارے خظ میں نیا اک سلام کس کا تھا

ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا .. بہادر شاہ ظفر

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخم خنجر عشق
کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
کہا عیسیٰ نے قم کشتے کو تیرے
کچھ اب تو نے بھی فرمایا تو ہوتا
نہ بولا ہم نے کھرکایا بہت در
ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا
یہ نخل آہ ہوتا بید ہی کاش
نہ ہوتا گو ثمر سایا تو ہوتا
جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر
وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
کیا تھا گر مریض عشق مجھ کو
عیادت کو کبھی آیا تو ہوتا
دل اس کی زلف میں الجھا ہے کب سے
ظفر اک روز سلجھایا تو ہوتا

جمعہ، 28 اگست، 2015

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا ۔ پروین شاکر

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے، اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروینؔ شاکر

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں ۔ پروین شاکر

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی
میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی دل میں تیرا
اُترتا ایک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں، وہ منزل ہے الفت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
پروینؔ شاکر