کلام مولانا محمد علی جوہر
بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا
ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا
روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا
جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے
سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا
مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا
جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز
اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا
بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا
ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا
روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا
جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے
سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا
مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا
جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز
اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں