جی میں ہے آج کی شب اس کے لیے جاگ کے کاٹی جائے
وہ جو آنکھوں سے پرے
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں بیٹھی ہے
کیا محبت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ میں
اسکے چہرے کو خدو خال میں لا کر دیکھوں
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ اسکی جبیں کیسی تھیں
ہونٹ کیسے تھے، بدن کیسا تھا، آنکھیں کیسی تھیں
بس یہ یاد ہے کہ وہ جیسی نظر آتی تھی
اس سے کہیں اچھی تھی
یہ ماہ وسال کا طوفان بہت ظالم ہے
وہ اگر پاس بھی ہوتی تو کسے خبر ہے کیسی ہوتی
یوں تو ہر رات میرے دل پر گراں گزرتی ہے
پھر بھی اے بھولے ہوئے تو ہی بتا
غم کی زنجیر بھلا
جاگتے ، سوچتے رہنے سے کہاں کٹتی ہے
یہ تو آہٹ سی ابھی نکہت گل کی طرح پھیلی ہے
تیرے قدموں کی صدا لگتی ہے
جب کبھی کوئی جہاز یاد کی شمع لیے
غم کی بے چین ہواؤں سے گزرتا ہے تو دل
شام فرقت کے تصور سے لرز اٹھتا ہے
شام فرقت جو حقیقت ہے مگر خواب نما لگتی ہے
چاند جب ابر کے ٹکروں پہ سفر کرتا ہے تو یوں لگتا ہے
میں بھی اک ابر کا ٹکرا ہوں جسے تیرا وصل
تیرا اک لمحہ وصل
دائمی ہجر کے اندو ہ مسلسل کے عوض بار نہیں
اے مجھے ابر کے ٹکرے کی طرح چھوڑ کے جانے والے
تیرے بخشے ہوئے لمحے کے عوض
کیا مجھے دینا پڑا اس سے سرو کار نہیں
پانچویں سالگرہ جدائی کی آج مناؤں شب بھر
پھر ایئر پورٹ کی ریلنگ پر ٹکا کے کہنی
تیرے رخصت کا سماں دھیان میں لاؤں شب بھر
تو جو روتی ہوئی آنکھوں سے پرے
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں کہیں بیٹھی ہے
( امجد اسلام امجد )
وہ جو آنکھوں سے پرے
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں بیٹھی ہے
کیا محبت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ میں
اسکے چہرے کو خدو خال میں لا کر دیکھوں
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ اسکی جبیں کیسی تھیں
ہونٹ کیسے تھے، بدن کیسا تھا، آنکھیں کیسی تھیں
بس یہ یاد ہے کہ وہ جیسی نظر آتی تھی
اس سے کہیں اچھی تھی
یہ ماہ وسال کا طوفان بہت ظالم ہے
وہ اگر پاس بھی ہوتی تو کسے خبر ہے کیسی ہوتی
یوں تو ہر رات میرے دل پر گراں گزرتی ہے
پھر بھی اے بھولے ہوئے تو ہی بتا
غم کی زنجیر بھلا
جاگتے ، سوچتے رہنے سے کہاں کٹتی ہے
یہ تو آہٹ سی ابھی نکہت گل کی طرح پھیلی ہے
تیرے قدموں کی صدا لگتی ہے
جب کبھی کوئی جہاز یاد کی شمع لیے
غم کی بے چین ہواؤں سے گزرتا ہے تو دل
شام فرقت کے تصور سے لرز اٹھتا ہے
شام فرقت جو حقیقت ہے مگر خواب نما لگتی ہے
چاند جب ابر کے ٹکروں پہ سفر کرتا ہے تو یوں لگتا ہے
میں بھی اک ابر کا ٹکرا ہوں جسے تیرا وصل
تیرا اک لمحہ وصل
دائمی ہجر کے اندو ہ مسلسل کے عوض بار نہیں
اے مجھے ابر کے ٹکرے کی طرح چھوڑ کے جانے والے
تیرے بخشے ہوئے لمحے کے عوض
کیا مجھے دینا پڑا اس سے سرو کار نہیں
پانچویں سالگرہ جدائی کی آج مناؤں شب بھر
پھر ایئر پورٹ کی ریلنگ پر ٹکا کے کہنی
تیرے رخصت کا سماں دھیان میں لاؤں شب بھر
تو جو روتی ہوئی آنکھوں سے پرے
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں کہیں بیٹھی ہے
( امجد اسلام امجد )
کیا بات ھے امجد صاحب کی
جواب دیںحذف کریںکیا بات ھے امجد صاحب کی
جواب دیںحذف کریںامجد اسلام امجد کی اللہ مغفرت فرمائے ۔ آمین
جواب دیںحذف کریں