اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

پیر، 8 فروری، 2016

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے ۔۔۔ افتخار عارف

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے
شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے

شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا
کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے

بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے

کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے
کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے

کھیل تماشا بربادی پر ختم ہوا
ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے

کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں
بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے

ابھی گیا ہے کوئی مگر یوں لگتا ہے
جیسے صدیاں بیتیں گھر خاموش ہوئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں