اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

بدھ، 22 نومبر، 2023

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ - ناصر کاظمی کی غزل

 غزل ناصر کاظمی

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ


بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر

ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ


خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم

وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ


نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یونہی ذرا کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ


کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دورِ آسماں بھی

جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ


بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ


شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ


مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی

جو نالہ اٹھا تھا رات دِل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ


وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا

یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ


وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ


وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا

تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ


وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر

تری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ


کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں - ناصر کاظمی کی غزل


 غزل ناصر کاظمی

کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں


یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر

سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں


رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو

تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی چلیں


یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں


اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

ناصر کاظمی


کل جنہیں زندگی تھی راس بہت - ناصر کاظمی کی غزل

Kal jinhain Zindagi Thi Raas Buhat . Nasir Kazmi Ghazal 

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

آج دیکھا انہیں‌اداس بہت


رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا

اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت


کیوں نہ روؤں تری جدائی میں

دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت


چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی

ہے غریبی میں یہ لباس بہت


وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ

ہے یہاں درد کی اُگاس بہت


سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر

یاد آتی ہے گل کی باس بہت

ناصر کاظمی