طویل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے
اُسے بلا کے مِلا عُمر بھر کا سناّٹا
مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے
اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
مَیں سوچتا ہوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے
ابھی تک اس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے، تو خدا کِس لیے بناؤں اُسے
ندیم ترکِ محبت کو ایک عُمر ہوئی
مَیں اب بھی سوچ رہا ہوں، کہ بُھول جاؤں اُسے
احمد ندیم قاسمی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں