تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے : فیض احمد فیض
تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے
کس کا درد ہو کرتے ہیں ہم تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہُوا ہے جب سے دلِ نا صبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں