اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

پیر، 7 ستمبر، 2015

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے .فیض احمد فیض کی ایک نظم ۔(ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی)

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
(ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی)
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں‌کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں‌کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے ،لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل ، دل میں قندیل ِغم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں‌میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے 
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کرچلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں‌ مارے گئے
(فیض احمد فیضؔ)
منٹگمری جیل
15 مئی 54ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں