اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

پیر، 7 ستمبر، 2015

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے ۔ فیض احمد فیض ۔ Faiz ahmad faiz

غزل
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوقِ فضول و الفتِ ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرفِ ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یارِ خوش خصال سرِ بام ہی تو ہے
بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقتِ ِسرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے
منٹگمری جیل
9، مارچ، 1954

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں