اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں
جمعرات، 3 ستمبر، 2015
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا .. بہادر شاہ ظفر
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخم خنجر عشق
کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
کہا عیسیٰ نے قم کشتے کو تیرے
کچھ اب تو نے بھی فرمایا تو ہوتا
نہ بولا ہم نے کھرکایا بہت در
ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا
یہ نخل آہ ہوتا بید ہی کاش
نہ ہوتا گو ثمر سایا تو ہوتا
جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر
وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
کیا تھا گر مریض عشق مجھ کو
عیادت کو کبھی آیا تو ہوتا
دل اس کی زلف میں الجھا ہے کب سے
ظفر اک روز سلجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخم خنجر عشق
کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
کہا عیسیٰ نے قم کشتے کو تیرے
کچھ اب تو نے بھی فرمایا تو ہوتا
نہ بولا ہم نے کھرکایا بہت در
ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا
یہ نخل آہ ہوتا بید ہی کاش
نہ ہوتا گو ثمر سایا تو ہوتا
جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر
وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
کیا تھا گر مریض عشق مجھ کو
عیادت کو کبھی آیا تو ہوتا
دل اس کی زلف میں الجھا ہے کب سے
ظفر اک روز سلجھایا تو ہوتا
جمعہ، 28 اگست، 2015
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا ۔ پروین شاکر
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے، اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروینؔ شاکر
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے، اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروینؔ شاکر
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں ۔ پروین شاکر
خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی
میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی دل میں تیرا
اُترتا ایک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں، وہ منزل ہے الفت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
پروینؔ شاکر
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی
میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی دل میں تیرا
اُترتا ایک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں، وہ منزل ہے الفت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
پروینؔ شاکر
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح ۔ پروین شاکر
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح
ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر رُوح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح
کون جانے نئے سال میں تُو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے، ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب، مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو، مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
پروینؔ شاکر
دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح
ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر رُوح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح
کون جانے نئے سال میں تُو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے، ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب، مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو، مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
پروینؔ شاکر
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی ۔ کلام پروین شاکر
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مری ہرجائی کی
تیرا پہلو بھی تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹا ہے
جاگ اٹھتی ہے عجب خواہش انگڑائی کی
پروین شاکر
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مری ہرجائی کی
تیرا پہلو بھی تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹا ہے
جاگ اٹھتی ہے عجب خواہش انگڑائی کی
پروین شاکر
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ۔ نعتیہ کلام مولانا الطاٖ ف حسین حالی
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
مولاناالطاف حسین حالی
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
مولاناالطاف حسین حالی
کہنا بڑوں مانو ۔ مولانا الظاف حسین حالی
کہنا بڑوں مانو
اے بھولے بھالے بچو، نادانو، ناتوانو
سر پر بڑوں کا سایہ، سایہ خدا کا جانو
حکم ان کا ماننے میں برکت ہے، میری مانو
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ اور استاد، سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی، حق میں تمہارے نعمت
کڑوی نصیحتوں میں ان کی بھرا ہے امرت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ کا عزیزو، مانا نہ جس نے کہنا
دشوار ہے جہاں میں عزت سے اس کا رہنا
ڈر ہے پڑے نہ صدمہ ذلت کا اس کو سہنا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
دنیا میں کی جنہوں نے ماں باپ کی اطاعت
دنیا میں پای عزت، عقبی میں پای راحت
ماں باپ کی اطاعت ہے دو جہاں کی دولت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
تم کو نہیں خبر کچھ اپنے برے بھلے کی
جتنی ہے عمر چھوٹی اتنی ہے عقل چھوٹی
ہے بہتری اسی میں جو ہے بڑوں کی مرضی
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ہے کوی دن میں پیارو وہ وقت آنے والا
دنیا کی مشکلوں سے تم کو پڑے گا پالا
مانے گا جو بڑوں کی جیتے گا وہ ہی پالا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
اے بھولے بھالے بچو، نادانو، ناتوانو
سر پر بڑوں کا سایہ، سایہ خدا کا جانو
حکم ان کا ماننے میں برکت ہے، میری مانو
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ اور استاد، سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی، حق میں تمہارے نعمت
کڑوی نصیحتوں میں ان کی بھرا ہے امرت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ کا عزیزو، مانا نہ جس نے کہنا
دشوار ہے جہاں میں عزت سے اس کا رہنا
ڈر ہے پڑے نہ صدمہ ذلت کا اس کو سہنا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
دنیا میں کی جنہوں نے ماں باپ کی اطاعت
دنیا میں پای عزت، عقبی میں پای راحت
ماں باپ کی اطاعت ہے دو جہاں کی دولت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
تم کو نہیں خبر کچھ اپنے برے بھلے کی
جتنی ہے عمر چھوٹی اتنی ہے عقل چھوٹی
ہے بہتری اسی میں جو ہے بڑوں کی مرضی
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ہے کوی دن میں پیارو وہ وقت آنے والا
دنیا کی مشکلوں سے تم کو پڑے گا پالا
مانے گا جو بڑوں کی جیتے گا وہ ہی پالا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت . مولانا الظاف حسین حالی
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت
واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت
رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت
واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت
رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)