اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 4 ستمبر، 2015

حسنِ مہ، گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے .. مرزا اسد اللہ خاں غالب

حسنِ مہ، گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے

بوسہ دیتے نہیں، اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے

اور بازار سے لے آئے ،اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے ،مرا جامِ سفال، اچّھا ہے

بے طلب دیں، تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا ،جس کو نہ ہو خوئےسوال، اچّھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے

دیکھیے ،پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے، کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو، کمال اچّھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے

خضر سلطاں کو رکھے، خالقِ اکبر، سر سبز
شاہ کے باغ میں، یہ تازہ نہال اچّھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت، لیکن
دل کے خوش رکھنے کو ،غالب ،یہ خیال اچّھا ہے

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہوگی ۔ نواب داغ دہلوی DAGH DEHLVI

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہوگی
خدا کے سامنے جب میری آپ کی ہوگی

تمام عمر بسر یوں ہی زندگی ہوگی
خوشی میں رنج کہیں رنج میں خوشی ہوگی

وہاں بھی تجھ کو جلائیں گے، تم جو کہتے ہو
خبر نہ تھی مجھے جنت میں آگ بھی ہوگی

تری نگاہ کا لڑنا مجھے مبارک ہو
یہ جنگ و ہ ہے کہ آخر کو دوستی ہوگی

سلیقہ چاہئے عادت ہے شرط اس کے لیئے
اناڑیوں سے نہ جنت میں مے کشی ہوگی

مزا ہے اُن کو بھی مجھ کو بھی ایسی باتوں کا
جلی کٹی یوں ہی باہم کٹی چھنی ہوگی

ہمارے کان لگے ہیں تری خبر کی طرف
پہنچ ہی جائے گی جو کچھ بُری بھلی ہوگی

مجھے ہے وہم یہ شوخی کا رنگ کل تو نہ تھا
رقیب سے تری تصویر بھی ہنسی ہوگی

ملیں گے پھر کبھی اے زندگی خدا حافظ
خبر نہ تھی یہ ملاقات آخری ہوگی

رقیب اور وفا دار ہو، خدا کی شان
بجا ہے اُس نے جفا پر وفا ہی کی ہوگی

بہت جلائے گا حوروں کو داغ جنت میں
بغل میں اُس کی وہاں ہند کی پری ہوگی

نواب داغ دہلوی

گل کو شبنم سے آگ لگ جائے


جمعرات، 3 ستمبر، 2015

سرمے کا تل لگا کے رخِ لاجواب پہ ۔ گلدستہءِ اشعار

http://urdu-poet.blogspot.no/

تمہارے خظ میں نیا اک سلام کس کا تھا ۔ گلدسہ ءِ اشعار

تمہارے خظ میں نیا اک سلام کس کا تھا

ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا .. بہادر شاہ ظفر

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخم خنجر عشق
کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
کہا عیسیٰ نے قم کشتے کو تیرے
کچھ اب تو نے بھی فرمایا تو ہوتا
نہ بولا ہم نے کھرکایا بہت در
ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا
یہ نخل آہ ہوتا بید ہی کاش
نہ ہوتا گو ثمر سایا تو ہوتا
جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر
وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
کیا تھا گر مریض عشق مجھ کو
عیادت کو کبھی آیا تو ہوتا
دل اس کی زلف میں الجھا ہے کب سے
ظفر اک روز سلجھایا تو ہوتا

جمعہ، 28 اگست، 2015

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا ۔ پروین شاکر

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے، اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروینؔ شاکر

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں ۔ پروین شاکر

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی
میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی دل میں تیرا
اُترتا ایک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں، وہ منزل ہے الفت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
پروینؔ شاکر

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح ۔ پروین شاکر

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح
ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر رُوح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح
کون جانے نئے سال میں تُو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے، ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب، مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو، مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
پروینؔ شاکر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی ۔ کلام پروین شاکر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مری ہرجائی کی
تیرا پہلو بھی تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹا ہے 
جاگ اٹھتی ہے عجب خواہش انگڑائی کی
پروین شاکر