اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 13 ستمبر، 2015

ٖفیض احمد فیض . Page

کلام فیض احمد فیض

اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے ۔ ابن انشاء

ابن انشاء
اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے
ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہل محبت کو آزاد جوانی ہے
ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں
دنیا کہے دیوانا ۔۔۔ دنیا دیوانی ہے
اک بات مگر ہم بھی پوچھیں جو اجازت
کیوں تم نے یہ غم یہ کر پردیس کی ٹھانی ہے
سکھ لے کر چلے جانا ، دکھ دے کر چلے جا نا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہدیہ دل مفلس کا چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے

اِتنی مُدّت بعد ملے ہو ۔ محسن نقوی

اِتنی مُدّت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم رہتے ہو؟
اِتنے خائف کیوں رہتے ہو؟
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو
تیز ہَوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟
کاش کوئی ہم سے بھی پوچہے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو!
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اِتنے اچھّے کیوں لگتے ہو؟
پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
ّپتھر بن کر کیا تکتے ہو
جاؤ جیت کا جشن مناؤ!
میں جھوٹا ہوں، تم سچّے ہو
اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں اُلجھے ہو؟
کہنے کو رہتے ہو دل میں!
پھر بھی کتنے دُور کھڑے ہو
رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصّے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟
محسن تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو، پھر بھی اچھّے ہو-
محسن نقوی

ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں ۔ ابنِ انشاء

ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہُوا
جی مچلتا تھا ایک اک شے پر مگر
جیب خالی تھی، کچھ مول لے نہ سکا۔
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں۔
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے۔
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو ایک اک دکاں مول لوں۔
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں۔
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں!
پر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں!!
ابنِ انشاء

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا ۔ فیض احمد فیض

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
فیض احمد فیض

یہ ہم نے دیکھا تھا خواب پیارے، ندی کنارے ۔۔ محسن نقوی کی مشہور زمانہ غزل

یہ ہم نے دیکھا تھا خواب پیارے، ندی کنارے
زمیں پہ اترے تھے دو ستارے، ندی کنارے
نجانے گزرے ہیں کتنے ساون، اس آرزو میں
کبھی تو کوئی، ہمیں پکارے، ندی کنارے
وہی شجر ہیں ، وہی ہیں سائے، مگر پرائے
ہیں اپنی بستی کے رنگ سارے، ندی کنارے
اتر کے مہتاب بن گیا آئینہ کسی کا
کسی نے بال اپنے یوں سنوارے، ندی کنارے
کبھی ادھر سے گزر کے دیکھو تو یاد آئیں
وہ قول اپنے، وچن تمھارے، ندی کنارے
دعآئیں دیتی ہیں بانسری کی صدائیں شب کو
کبھی نہ سوکھیں یہ سبز چارے، ندی کنارے
تمہیں نہ دیکھا تو، رائیگاں رائیگاں، لگے ہیں
شراب، شبنم، شفق، شرارے، ندی کنارے
تمہیں نہ دیکھا تو موج در موج بٹ گئے ہیں
یہ شرط ہم اس طرح سے ہارے، ندی کنارے
یہ گھر کی تنہائیاں تو محسن سدا رہیں گی
چلو سحر کی ہوا پکارے، ندی کنارے
محسن نقوی

اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر ۔ محسن نقوی کی خوبصورت غزل

اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب!
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی روبھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر
برہم نہ ہو کم فہمی کوتہ نظراں پر ۔۔۔۔۔!
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گِلاکر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر!
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اِس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں
زخموں کو ہی وابستہء زنجیرِ صبا کر
اِک رُوح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تُو اب تو مجھے جسم کے زنداںسے رہا کر
اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
محسن نقوی

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ایک خوبصورت غزل

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی !
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگردار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی !

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے . جگر مراد آبادی ۔ Jigar murad abadi

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے

سحر ہونے کو ہے، بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملۂ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے

قیامت کیا یہ اے حسنِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے

وہی مے خانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدّھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہیں شاہدو ساقی، مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع، لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے

وہی شورش ہے لیکن جیسے موجِ تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے

وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

(جگرؔ مراد آبادی)​

محسن نقوی کی شاعری

اک دیا دل میں جلانا بھی، بجھا بھی دینا
یاد کرنا بھی اسے روز، بھلا بھی دینا
کیا کہوں میری چاہت ہے یا نفرت اس کی
نام لکھنا بھی میرا، لکھ کے مٹا بھی دینا
پھر نہ ملنے کو بچھڑتا ہوں تجھ سے لیکن
مڑ کے دیکھوں تو پلٹنے کی دعا بھی دینا
خط بھی لکھنا اسے مایوس بھی رہنا اس سے
جرم کرنا بھی مگر خود کو سزا بھی دینا
مجھ کو رسموں کا تکلف بھی گوارا لیکن
جی میں آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا
اس سے منسوب بھی کر لینا پرانے قصے
اس کے بالوں میں نیا پھول سجا بھی دینا
صورتِ نقش ِ قدم، دشت میں رہنا محسن
اپنے ہونے سے نہ ہونے کا پتہ بھی دینا
محسن نقوی
طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مرا دل تھا شگوفہ بھی شرر بھی
اترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مرے یار باندازِ دگر بھی
حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی
سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گرائے کئی سر سبز شجر بھی
وہ آگ جو پھیلی مرے دامن کو جلا کر
اس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی
محسن یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی
محسن نقوی
اب کے اس طور سے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
جاگتے ذہن کی میراث بنا دے مجھ کو
میں نے سمجھا ہے تجھے منصفِ دوراں اکثر
میری ناکردہ گناہی کی سزا دے مجھ کو
میں تری راہ میں اک سنگ سبک وزن تو ہوں
دیر کیا لگتی ہے ٹھوکر سے ہٹا دے مجھ کو
یہ الگ بات کہ اوجھل ہوں نظر سے ورنہ
میں تیرے پاس ہی رہتا ہوں صدا دے مجھ کو
میں دھڑکتا ہوں تیرے سینے میں دل کی صورت
اے مرے دشمنِ جاں اور دعا دے مجھ کو
اف شبِ غم کا وہ ٹھہرا ہوا لمحہ محسن
جب مرے وہم کی آہٹ بھی جگا دے مجھ کو
محسن نقوی
پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرہءِ خوں میں
مت پوچھ مری چشمِ تحیر سے کہ مجھ کو
کیا لوگ نظر آئے ہیں دشمن کی صفوں میں
کچھ وہ بھی کم آمیز تھا، تنہا تھا، حسیں تھا
کچھ میں بھی مخل ہو نہ سکا اس کے سکوں میں
ہر صبح کا سورج تھا میرے سائے کا دشمن
ہر شب نے چھپایا ہے مجھے اپنے پروں میں
اب اہل خرد بھی ہیں لہو سنگِ جنوں سے
کیا رسم چلی شہر کے آشفتہ سروں سے
جو سجدہ گہِ ظلمت ِ دوراں رہے محسن
اتری نہ کوئی اندھی کرن ایسے گھروں میں
محسن نقوی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت
تم اپنی نیند بچھاؤ تم اپنے خواب چنو
بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا
تم اپنےدل میں دھڑکتے ہوئے حروف سنو
تمہارے شہر کی گلیوں میں سیل رنگ بخیر
تمہارے نقش قدم پھول پھول کھلتےر ہیں
وہ رہگزر جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو
وہاں پہ ابر جھکیں آسمان ملتے رہیں
نہیں ضروری کہ ہر اجنبی کی بات سنو
ہر اک صدا پہ دھڑکنا بھی دل پہ فرض نہیں
سکوتِ حلقہء زنجیرِ در بھی کیوں ٹوٹے
صبا کا ساتھ نبھانا جنوں پہ قرض نہیں
ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں
کہ عمر کیسے کٹی کس کے ساتھ بیت گئ
ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے ؟
کہ فصل بخشش موج فرات بیت گئ
یہ ایک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا تھا
وہ اک صدی تھی جو بے التفات بیت گئ
ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی
چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی
محسن نقوی
لہو کی موج ہوں‌ اور جسم کے حصار میں ہوں
رواں رہوں بھی تو کیسے کہ برف زار میں ہوں
جہانِ شامِ الم کے اداس ہمسفرو
مجھے تلاش کرو، میں اسی دیار میں ہوں
میں پھول بھی ہوں میرے پیرہن میں‌رنگ بھی ہے
مگر ستم یہ ہوا ہے کہ ریگ زار میں ہوں
چراغِ راہ سہی خود فریب ہوں اتنا
کہ شب کی آخری ہچکی کے انتظار میں ہوں
ہر ایک پل مجھے خوفِ شکست ہے محسن
میں آئینہ ہوں مگر دستِ سنگبار میں ہوں
محسن نقوی
اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے، کہیں‌ خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
دل شکستہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر شاخِ بدن ٹوٹی ہے
ایک شعلہ کہ تہہِ خیمہءِ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
میرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن
شیشہ شیشہ میری سنگینیءِ فن ٹوٹی ہے
محسن نقوی
شام کے سر پر آنچل دیکھا
ہم نے جلتا جنگل دیکھا
اپنی آنکھ میں آنسو پائے
اُن کی آنکھ میں کاجَل دیکھا
پھول نظر میں رقصاں رقصاں
جانے کِس کا آنچل دیکھا
من کے بَن میں خاک اُڑتی تھی
آج وہاں پر جل تھَل دیکھا
جب بھی دیکھا ہے محسن کو
تیرے پیار میں پاگل دیکھا
محسن نقوی
میں دل پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی میرے گھر کا ہی کیوں‌ مقدر ہو ؟
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شامِ درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسماں کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں میرے دکھ، نشانیاں تیری
میں تیرے خط، تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسن
اس آئینے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
محسن نقوی