محسن نقوی کا منتخب کلام
اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں
اتوار، 13 ستمبر، 2015
اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے ۔ ابن انشاء
ابن انشاء
اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے
ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہل محبت کو آزاد جوانی ہے
ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں
دنیا کہے دیوانا ۔۔۔ دنیا دیوانی ہے
اک بات مگر ہم بھی پوچھیں جو اجازت
کیوں تم نے یہ غم یہ کر پردیس کی ٹھانی ہے
سکھ لے کر چلے جانا ، دکھ دے کر چلے جا نا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہدیہ دل مفلس کا چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے
اِتنی مُدّت بعد ملے ہو ۔ محسن نقوی
اِتنی مُدّت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم رہتے ہو؟
اِتنے خائف کیوں رہتے ہو؟
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو
تیز ہَوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟
کاش کوئی ہم سے بھی پوچہے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو!
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اِتنے اچھّے کیوں لگتے ہو؟
پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
ّپتھر بن کر کیا تکتے ہو
جاؤ جیت کا جشن مناؤ!
میں جھوٹا ہوں، تم سچّے ہو
اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں اُلجھے ہو؟
کہنے کو رہتے ہو دل میں!
پھر بھی کتنے دُور کھڑے ہو
رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصّے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟
محسن تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو، پھر بھی اچھّے ہو-
محسن نقوی
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں ۔ ابنِ انشاء
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہُوا
جی مچلتا تھا ایک اک شے پر مگر
جیب خالی تھی، کچھ مول لے نہ سکا۔
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں۔
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے۔
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو ایک اک دکاں مول لوں۔
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں۔
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں!
پر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں!!
ابنِ انشاء
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہُوا
جی مچلتا تھا ایک اک شے پر مگر
جیب خالی تھی، کچھ مول لے نہ سکا۔
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں۔
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے۔
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو ایک اک دکاں مول لوں۔
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں۔
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں!
پر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں!!
ابنِ انشاء
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا ۔ فیض احمد فیض
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
فیض احمد فیض
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
فیض احمد فیض
یہ ہم نے دیکھا تھا خواب پیارے، ندی کنارے ۔۔ محسن نقوی کی مشہور زمانہ غزل
یہ ہم نے دیکھا تھا خواب پیارے، ندی کنارے
زمیں پہ اترے تھے دو ستارے، ندی کنارے
نجانے گزرے ہیں کتنے ساون، اس آرزو میں
کبھی تو کوئی، ہمیں پکارے، ندی کنارے
وہی شجر ہیں ، وہی ہیں سائے، مگر پرائے
ہیں اپنی بستی کے رنگ سارے، ندی کنارے
اتر کے مہتاب بن گیا آئینہ کسی کا
کسی نے بال اپنے یوں سنوارے، ندی کنارے
کبھی ادھر سے گزر کے دیکھو تو یاد آئیں
وہ قول اپنے، وچن تمھارے، ندی کنارے
دعآئیں دیتی ہیں بانسری کی صدائیں شب کو
کبھی نہ سوکھیں یہ سبز چارے، ندی کنارے
تمہیں نہ دیکھا تو، رائیگاں رائیگاں، لگے ہیں
شراب، شبنم، شفق، شرارے، ندی کنارے
تمہیں نہ دیکھا تو موج در موج بٹ گئے ہیں
یہ شرط ہم اس طرح سے ہارے، ندی کنارے
یہ گھر کی تنہائیاں تو محسن سدا رہیں گی
چلو سحر کی ہوا پکارے، ندی کنارے
محسن نقوی
زمیں پہ اترے تھے دو ستارے، ندی کنارے
نجانے گزرے ہیں کتنے ساون، اس آرزو میں
کبھی تو کوئی، ہمیں پکارے، ندی کنارے
وہی شجر ہیں ، وہی ہیں سائے، مگر پرائے
ہیں اپنی بستی کے رنگ سارے، ندی کنارے
اتر کے مہتاب بن گیا آئینہ کسی کا
کسی نے بال اپنے یوں سنوارے، ندی کنارے
کبھی ادھر سے گزر کے دیکھو تو یاد آئیں
وہ قول اپنے، وچن تمھارے، ندی کنارے
دعآئیں دیتی ہیں بانسری کی صدائیں شب کو
کبھی نہ سوکھیں یہ سبز چارے، ندی کنارے
تمہیں نہ دیکھا تو، رائیگاں رائیگاں، لگے ہیں
شراب، شبنم، شفق، شرارے، ندی کنارے
تمہیں نہ دیکھا تو موج در موج بٹ گئے ہیں
یہ شرط ہم اس طرح سے ہارے، ندی کنارے
یہ گھر کی تنہائیاں تو محسن سدا رہیں گی
چلو سحر کی ہوا پکارے، ندی کنارے
محسن نقوی
اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر ۔ محسن نقوی کی خوبصورت غزل
اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب!
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی روبھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر
برہم نہ ہو کم فہمی کوتہ نظراں پر ۔۔۔۔۔!
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گِلاکر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر!
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اِس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں
زخموں کو ہی وابستہء زنجیرِ صبا کر
اِک رُوح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تُو اب تو مجھے جسم کے زنداںسے رہا کر
اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
محسن نقوی
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب!
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی روبھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر
برہم نہ ہو کم فہمی کوتہ نظراں پر ۔۔۔۔۔!
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گِلاکر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر!
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اِس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں
زخموں کو ہی وابستہء زنجیرِ صبا کر
اِک رُوح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تُو اب تو مجھے جسم کے زنداںسے رہا کر
اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
محسن نقوی
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ایک خوبصورت غزل
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی !
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگردار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی !
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی !
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگردار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی !
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے . جگر مراد آبادی ۔ Jigar murad abadi
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
سحر ہونے کو ہے، بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملۂ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ اے حسنِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی مے خانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں شاہدو ساقی، مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع، لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی شورش ہے لیکن جیسے موجِ تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
(جگرؔ مراد آبادی)
مرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
سحر ہونے کو ہے، بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملۂ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ اے حسنِ دو عالم ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دل کشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی مے خانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہیں شاہدو ساقی، مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع، لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی شورش ہے لیکن جیسے موجِ تہ نشیں کوئی
وہی دل ہے مگر آواز مدّھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
(جگرؔ مراد آبادی)
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)