اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 11 اکتوبر، 2015

مرا پیمبر عظیم تر ہے ۔ جناب مظفر وارثی کا مشہور زمانہ نعتیہ کلام

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی 
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی 
گنی نہ جائيں صفات جس کی 
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی 
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ
آئینہِ حق ہے شہہِ ابرار کا چہرہ

دیکھیں تو دعا مانگیں یہی یوسفِ کنعاں
تکتا رہوں خالق ! ترے شہکار کا چہرہ

خورشیدِ حلیمہ! تری مشتاق ہیں آنکھیں
بھاتا نہیں اب ماہِ ضیا بار کا چہرہ

اے خُلد کروں گا ترا دیدار بھی لیکن
اِس دم ہے نظر میں ترے مختار کاچہرہ

والشمس کی یہ دادِ قسم کہتی ہے مڑ کر
بے داغ رہا شاہ کے کردار کا چہرہ

جلوؤں سے ہو معمور کیوں نہ دل کا مدینہ
آنکھوں میں ہے اُس مطلعِ انوار کا چہرہ

دورانِ شفاعت وہ سکوں بخش دِلا سے
بے فکرِ ندامت ہے گنہگار کا چہرہ

کِھلتا ہی گیا پھول کی صورت دمِ آخر
اُترا نہیں دیکھا ترے بیمار کا چہرہ

پوچھا جو یہ سائل نے کہ کیا چیز ہے اَحسن
صدیق نے برجستہ کہا "یار کا چہرہ"

جھپکے جو نصیر آنکھ دمِ نزع تو یا رب!
پُتلی میں پھرے احمدِ مختار کا چہرہ

(نصیر الدین نصیر)​

اعلی حضرت احمد رضا خاں کی چار زبانوں کو ملا کر لکھی ایک بے مثال نعت

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی

منگل، 6 اکتوبر، 2015

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے ۔۔۔ ناصر کاظمی کی لاجواب غزل

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے
پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے
گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے
دنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے
ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے
لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دولت ہے نہ ثروت
ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے
مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ناصر کاظمی

جمعرات، 17 ستمبر، 2015

میر تقی میر کے مشہور زمانہ اشعار


میر تقی میر کے مشہور زمانہ اشعار

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا 
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا 
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا 

قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں
کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا

فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے


کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان، جب کی بات

اس عہد میں‌ الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوارِ وعدہء دیدار مرچلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا

چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا

شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

اشک آنکھوں میں کب نہیں‌ آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا 
شکر خدا کہ حقِ محبت ادا ہوا

کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی‌ میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا

جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اُس شوخ نے بھی کام کیا

کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب

کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤگے، سنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کر

جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر

میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کرجاؤں گا سفر میں دنیا سے تب تلک

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں

اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں

کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں

بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میر
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

عام ہے یار کی تجلی میر
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں

موئے سہتے سہتے جفاکاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

نازکی ان کے لب کی کیا کہیے


ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے

میر تقی میر

بدھ، 16 ستمبر، 2015

سحر جیتے گی یا شام ِ غریبَاں دیکھتے رہنا . (مصطفیٰ زیدی )

سحر جیتے گی یا شام ِ غریبَاں دیکھتے رہنا
یہ سر جھکتے ہیں یا دیوار ِ زنداں دیکھتے رہنا
ہر اک اہل ِ لہو نے بازیِ ایماں لگا دی ہے
جو اب کی بار ہوگا وہ چراغاں دیکھتے رہنا
ادھر سے مدّعی گزریں گے ایقان ِ شریعت کے
نظر آجائے شاید کوئی انساں دیکھتے رہنا
اُسے تم لوگ کیا سمجھو گے جیسا ہم سمجھتے ہیں ! 
مگر پھر بھی کریں گے اس سے پیماں دیکھتے رہنا
سمجھ میں آگیا تیری نگاہوں کے الجھنے پر ! 
بھری محفل میں سب کا ہم کو حیراں دیکھتے رہنا
ہزاروں مہرباں اس راستے پر ساتھ آئیں گے 
میاں یہ دل ہے یہ جیب و گریباں دیکھتے رہنا
دبا رکھو یہ لہریں ایک دن آہستہ آہستہ
یہی بن جائیں گی ، تمہید ِ طوفاں دیکھتے رہنا
(مصطفیٰ زیدی )