اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

پیر، 19 اکتوبر، 2015

سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب


سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب


سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

عدو کے سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بہ قدرِ فہم ہے اگر کیمیا کہیں اُس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ ایک جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حُسنِ صبر کی داد؟
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

وہ ریگِ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آکے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانیئے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو

بدھ، 14 اکتوبر، 2015

تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوشی گیلانی کی خوبصورت نظم

تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کتنا سہل جانا تھا 
خوشبوؤں کو چھو لینا
بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر 
گھر میں قید کر لینا
روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا
کتنا سہل جانا تھا 
خوشبوؤں کو چھو لینا
جگنوؤں کی باتوں سے پھول جیسے آنگن میں
روشنی سی کرلینا
اس کی یاد کا چہرہ خوابناک آنکھوں کی
جھیل کے گلابوں پر دیر تک سجا رکھنا
کتنا سہل جانا تھا
اے نظر کی خوش فہمی ! اس طرح نہیں ہوتا 
تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے
نوشی گیلانی

پیر، 12 اکتوبر، 2015

جی میں ہے آج کی شب اس کے لیے جاگ کے کاٹی جائے ۔۔ امجد اسلام امجد کی خوبصورت آزاد نظم

جی میں ہے آج کی شب اس کے لیے جاگ کے کاٹی جائے 
وہ جو آنکھوں سے پرے 
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں بیٹھی ہے 
کیا محبت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ میں 
اسکے چہرے کو خدو خال میں لا کر دیکھوں 
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ اسکی جبیں کیسی تھیں
ہونٹ کیسے تھے، بدن کیسا تھا، آنکھیں کیسی تھیں
بس یہ یاد ہے کہ وہ جیسی نظر آتی تھی 
اس سے کہیں اچھی تھی 
یہ ماہ وسال کا طوفان بہت ظالم ہے 
وہ اگر پاس بھی ہوتی تو کسے خبر ہے کیسی ہوتی 
یوں تو ہر رات میرے دل پر گراں گزرتی ہے 
پھر بھی اے بھولے ہوئے تو ہی بتا 
غم کی زنجیر بھلا 
جاگتے ، سوچتے رہنے سے کہاں کٹتی ہے 
یہ تو آہٹ سی ابھی نکہت گل کی طرح پھیلی ہے 
تیرے قدموں کی صدا لگتی ہے 
جب کبھی کوئی جہاز یاد کی شمع لیے 
غم کی بے چین ہواؤں سے گزرتا ہے تو دل
شام فرقت کے تصور سے لرز اٹھتا ہے 
شام فرقت جو حقیقت ہے مگر خواب نما لگتی ہے 
چاند جب ابر کے ٹکروں پہ سفر کرتا ہے تو یوں لگتا ہے 
میں بھی اک ابر کا ٹکرا ہوں جسے تیرا وصل 
تیرا اک لمحہ وصل 
دائمی ہجر کے اندو ہ مسلسل کے عوض بار نہیں 
اے مجھے ابر کے ٹکرے کی طرح چھوڑ کے جانے والے 
تیرے بخشے ہوئے لمحے کے عوض 
کیا مجھے دینا پڑا اس سے سرو کار نہیں 
پانچویں سالگرہ جدائی کی آج مناؤں شب بھر 
پھر ایئر پورٹ کی ریلنگ پر ٹکا کے کہنی 
تیرے رخصت کا سماں دھیان میں لاؤں شب بھر
تو جو روتی ہوئی آنکھوں سے پرے
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں کہیں بیٹھی ہے 
( امجد اسلام امجد )

بات کرنی مجھے مشکِل کبھی ایسی تو نہ تھی . بہادر شاہ ظفر

بات کرنی مجھے مشکِل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفِل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بیقراری تجھے اے دِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کِیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائِل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکسِ رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہِ کامِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہِ محبّت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزِل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کُوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آوازِ سلاسِل کبھی ایسی تو نہ تھی
نِگَہِ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافِل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتِل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفر سے ہر بار
خُو تری حُورِ شمائِل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفر

اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے ۔ کلام پیر نصیر الدین نصیر

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے
آج وہ رَمز آشنائے سِرِّ ھُو سجدے میں ہے

ہر نفس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے
منزلِ حق کی مجسم جستجو سجدے میں ہے

کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مصلی پر کھڑا
کیا نمازی ہے کہ بے خوف ِ عدو سجدے میں ہے

اے حسین ابن علی تجھ کو مبارک یہ عروج
آج تو اپنے خدا کے روبرو سجدے میں ہے

جانبِ کعبہ جھکا مولودِ کعبہ کا پسر
قبلہ رو ہو کر حسینِ قبلہ رو سجدے میں ہے

ابنِ زہرا اس تیری شانِ عبادت پر سلام
سر پہ قاتل آچکا ہے اور تو سجدے میں ہے

اللہ اللہ تیرا سجدہ اے شبیہ مصطفی
جیسے خود ذاتِ پیمبر ہو بہ ہو سجدے میں ہے

تھا عمل پیرا جو " كَلَّا لَا تُطِعْهُ " پر وہ آج
بن کے " وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ "کی آرزو سجدے میں ہے

یہ شرف کس کو ملا تیرے علاوہ بعدِ قتل
سر ہے نیزے کی بلندی پر ، لہو سجدے میں ہے

سر کو سجدے میں کٹا کر کہہ گیا زہرا کا لال
کچھ اگر ہے تو بشر کی آبرو سجدے میں ہے

کون جانے ، کو ن سمجھے ، کون سمجھائے نصیر
عابد و معبود کی جو گفتگو سجدے میں ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے ۔ جناب مظفر وارثی کا مشہور زمانہ نعتیہ کلام

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی 
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی 
گنی نہ جائيں صفات جس کی 
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی 
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ

بے مثل ہے کونین میں سرکار کا چہرہ
آئینہِ حق ہے شہہِ ابرار کا چہرہ

دیکھیں تو دعا مانگیں یہی یوسفِ کنعاں
تکتا رہوں خالق ! ترے شہکار کا چہرہ

خورشیدِ حلیمہ! تری مشتاق ہیں آنکھیں
بھاتا نہیں اب ماہِ ضیا بار کا چہرہ

اے خُلد کروں گا ترا دیدار بھی لیکن
اِس دم ہے نظر میں ترے مختار کاچہرہ

والشمس کی یہ دادِ قسم کہتی ہے مڑ کر
بے داغ رہا شاہ کے کردار کا چہرہ

جلوؤں سے ہو معمور کیوں نہ دل کا مدینہ
آنکھوں میں ہے اُس مطلعِ انوار کا چہرہ

دورانِ شفاعت وہ سکوں بخش دِلا سے
بے فکرِ ندامت ہے گنہگار کا چہرہ

کِھلتا ہی گیا پھول کی صورت دمِ آخر
اُترا نہیں دیکھا ترے بیمار کا چہرہ

پوچھا جو یہ سائل نے کہ کیا چیز ہے اَحسن
صدیق نے برجستہ کہا "یار کا چہرہ"

جھپکے جو نصیر آنکھ دمِ نزع تو یا رب!
پُتلی میں پھرے احمدِ مختار کا چہرہ

(نصیر الدین نصیر)​

اعلی حضرت احمد رضا خاں کی چار زبانوں کو ملا کر لکھی ایک بے مثال نعت

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا
منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل
تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت
جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں
پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی

منگل، 6 اکتوبر، 2015

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے ۔۔۔ ناصر کاظمی کی لاجواب غزل

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے
پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے
گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے
دنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے
ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے
لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دولت ہے نہ ثروت
ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے
مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ناصر کاظمی