اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

ہفتہ، 23 جنوری، 2016

داغ دہلوی کی خوبصورت غزل ۔۔ لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے




لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغ دہلوی

احمد فراز کی ایک خوبصورت نظم ۔۔۔۔ یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں




یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تیری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اُداس تنہائیوں کے لمحوں میں
ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے میں مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے
اور ابیہ ساری متاعِ ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روزوشب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر وہ تیرا مغنی
وہ جسکی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جسکے جینے کی خواہشیں بھی
خوداسکے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اسکا کہ وہ دیوانہ
بہت دنوں سے اُجڑ چکا ہے
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑچکا ہے
وہ تھک چکاتھا اور اسکا تیشہ
اُسی کے سینے میں گڑچکا ہے
(احمد فراز)

اتوار، 17 جنوری، 2016

وہ بات جو آپ کو کبھی نہ بھولے


قسم کھاتا ہوں اے کوہِ الم! دستِ زلیخا کی ۔ جوش ملیح آبادی


اگر انسان ہوں، دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا
میں ہر ناچیز ذرّے کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا

تری اِس اُلفت کی سوگند، اے لیلائے رنگینی
کہ ارضِ خار و خس کو سُنبلستاں کر کے چھوڑوں گا

وہ پنہاں قوّتیں جو مِل کے زک دیتی ہیں دُنیا کو
اُنہیں آپس ہی میں دست و گریباں کر کے چھوڑوں گا

سرِ تقلید کو مغزِ تفکر سے جِلا دے کر
چراغِ مردہ کو مہرِ درخشاں کر کے چھوڑوں گا

شعارِ تازہ کو بخشوں گا آب و رنگِ جمیعت
رسوم کُہنہ کی محفل کو ویراں کر کے چھوڑوں گا

چراغِ اجتہادِ نَو بہ نَو کی جلوہ ریزی سے
سرِ راہِ خرد مندی چراغاں کر کے چھوڑوں گا

مُسلطّ ہیں ازل کے روز سے جو ابنِ آدم پر
میں اُن اوہام کو سردر گریباں کر کے چھوڑوں گا

ترے اس پیچ و خم کھاتے دُھویں کو شمع حق بینی
فرازِ عقل پر ابرِ خراماں کر کے چھوڑوں گا

جو انساں، آج سنگ و خشت کو معبود کہتا ہے
اُس انساں کو الوہیت بداماں کر کے چھوڑوں گا

قناعت جس نے کر لی ہے عناصر کی غلامی پر
میں اُس کو کِرد گارِ بادوباراں کر کے چھوڑوں گا

قسم کھاتا ہوں اے کوہِ الم! دستِ زلیخا کی
کہ داماں کو ترے یوسف کا داماں کر کے چھوڑوں گا

پکاروں گا کلیم نو کو طُورِ عصرِ حاضر سے
جو کچھ کہہ دوں گا اُس کو دین و ایماں کر کے چھوڑوں گا

مری حکمت، بشر کو دعوتِ نَو دے کے دم لے گی
میں اِس بھٹکے ہوئے انساں کو انساں کر کے چھوڑوں گا

اگر یہ کُفر ہے جو کچھ زباں پر میری جاری ہے
تو میں اِس کفر کو گلبانگِ عرفاں کر کے چھوڑوں گا

اگر عصیاں ہی پر موقوف ہے انساں کی بیداری
تو میں دُنیا کو غرقِ بحرِ عصیاں کر کے چھوڑوں گا​

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں ۔ ناصر کاظمی

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر

تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر

تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر

شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر

یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر

دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابر کرم صبر کر صبر کر

کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر

پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر

درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر

دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا

افتخار عارف

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا 
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا 
شِکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر 
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا 
دمشقِ مصلحت و کوفۂ نفاق کے بیچ 
فغانِ قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا 
مآلِ عزتَ ساداتِ عشق دیکھ کے ہم 
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا 
فروغِ صنعتِ قد آوری کا موسم ہے 
سبک ہوئے پہ بھی نکلا ہے قد و قامت کیا

جوش ملیح آبادی کا کلام

جوش ملیح آبادی کا کلام

الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
تری تسبیح کو حاضر ہے لشکر خانہ زادوں کا 
یہ آدم ہے بڑا باغی نرا طاغی کھرا کھوٹا 
ڈبو دے گا لہو میں دہر کو یہ خاک کا پتلا 
بشر پیغمبرِ شر ہے اِسے پیدا نہ کر مولیٰ 
یہ آلِ تیغ ہے اولادِ پیکاں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
جہاد و جذبہ و جاہ و جلال و جنگ کی دھن میں 
عصا و چتر و مہر و افسر و اورنگ کی دھن میں 
زبان و مُلک و نسل و قوم و دین و رنگ کی دھن میں 
دف و طنبورہ و طاؤس و عود و چنگ کی دھن مین 
بہائے گا لہو گیتی پر انساں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
سعادت کو گرایا جائے گا قصرِ نحوست میں 
کتب خانے جلائے جائیں گے شہرِ جہالت میں 
زبانِ صدق کاٹی جائے گی دار الخلافت میں 
سرِ اخلاص تولا جائے گا صحنِ عدالت میں 
بہ میزانِ خمِ شمشیرِ براں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
مرے گا یہ فقط اپنی ہی عشرت کے سُبیتے پر 
یہ ٹانکے گا گہر بس اپنی ہی ٹوپی کے فیتے پر 
ترس کھائے گا یہ ظالم نہ مردے پر نہ جیتے پر 
نگاہِ قہر اب ہے کس لیے اپنے چہیتے پر 
بشر ہے خسروِ اقلیمِ عدواں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
بنے گا کوئے خوباں میں نہ خالی مرکزِ لذت 
خراباتِ مغاں ہی میں نہ گونجے گی غنائیت 
یہ لے بڑھ جائے گی اتنی کہ بہرِ مستی و عشرت 
حرم میں بھی کہ ہے دارالامانِ عفت و عصمت 
جلائی جائے گی قندیلِ عصیاں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
کبھی طغیانِ وحشت سے کبھی جوشِ تمنا سے 
کبھی دل کے اشارے سے کبھی اوروں کے ایما سے 
کبھی آہنگِ امشب سے کبھی گلبانگِ فردا سے 
کبھی ہیجانِ مستی سے کبھی دستِ زلیخا سے 
پھٹے گا حضرتِ نائب کا داماں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
** 
بنے گا شوقِ عصیاں کوہِ آتش بار کا لاوا 
نکالا جائے گا اِس آدمی کا خلد سے باوا 
خلافت کھائے گی اک روز دشتِ کفر میں کاوا 
ہماری بات کو ٹھکرا کر اب کیوں ہے یہ پچھتاوا 
بغاوت پر اتر آئے گا انساں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
قُوائے این و آں کو فکر کی بھٹی میں پگھلا کر 
محیطِ بے کرانِ ثابت و سیار پر چھا کر 
زمین و آسماں کی طاقتوں کو فتح فرما کر 
حیاتِ جاوداں کا تاج پیشانی پہ جھمکا کر 
یہ کل ہو گا الوہیت کا خواہاں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے ۔ غزل جون ایلیا

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے 
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے 
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں 
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے 
یہ خراباتیانِ خرد باختہ 
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے 
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں 
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے 
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم 
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے

جون ایلیا

کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے ۔ غزل مصطفی زیدی

کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے 
غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے 
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے 
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے 
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و 
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے 
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ 
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے ليے آ

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے ليے آ
آ پھر سے مُجھے چھوڑ کے جانے کے ليے آ
پہلے سے مراسم نا سہی پھر بھی کبھی تو
رسمِ راہِ دنيا ہی نبھانے کے ليے آ
کس کس کو بتائيں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے ليے آ
کچھ تو ميرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو مجھ کو منانے کے ليے آ
ايک عمر سے ہوں لذتِ گِريہ سے بھی محروم
اے راحتِ جان مجھ کو رُلانے کے ليے آ
اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہيں اميديں
يہ آخری شمعيں بھی بُجھانے کے ليے آ
فراز احمد فراز