اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 23 مارچ، 2012

Mir tuqi mir میر تقی میر

میر تقی میر




پتہ پتہ بوٹا بوٹا ،حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے


چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر نادان بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
...

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ جی اٹھتا ہے دیکھ اسے
یار کے آجانے کو یکایک ،عمر دو بارہ جانے ہے
(میر تقی میر)



فقیرانہ آئے صدا کرچلے 
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے 
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم 
سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے 
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی 
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے 
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے 
ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے 
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ 
سو تم ہم سے منہ بھی چُھپا کر چلے 
بہت آرزو تھی گلی کی تری 
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے 
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا 
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی 
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے 
پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے 
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے 
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے 
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

گئی عمر در بندِ فکرِ غزل 
سو یہ کام ایسا بڑا کر چلے

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر 
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

میر تقی میر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں