ا پنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آجائے تو کیا محفلیں پرپا دیکھوں
آنکھ کُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکوں
شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
جانے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کرو ہر بات سُنو
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ بارش کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اُسی رُت میں مہکتا دیکھوں
تُو میری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے اسے بس اک بار
خواب بن کر تیری آنکھ میں اُترتا دیکھوں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں