امجد اسلام امجد
جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!
نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں
تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں ملانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اتر جائیں
گُلِ امید کی صورت ترے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں
دیارِ دشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی کہ وہ رستے کدھر جائیں
تو کیا اے قاسمِ اشیاء یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں
جو بخشش میں ملے امجد تو اس خوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں
*****
اُلجھن : امجد اسلام امجد
وہ ایک سوچا ہوا ناز سا تکلم میں
نظر میں ایک جھجک سی کوئی بنائی ہوئی
لبوں پہ ایک تبسم ذرا لجایا سا
جبیں پہ بزمِ مروت سجی سجائی ہوئی
ڈھکا ڈھکا سا تکبر وہ بات سننے میں
تھی جس میں حسن کی نازش کہیں چھپائی ہوئی
بدن میں خوف کی لرزش بھی، اور دعوت بھی
گریز کرتی ہوئی اور قریب آئی ہوئی
کچھ اس کو دیکھ کے کھلتا نہ تھا کہ کیا ہے
فریب دیتی ہوئی یا فریب کھائی ہوئی
امجد اسلام امجد
جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!
نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں
تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں
کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں
نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں ملانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اتر جائیں
گُلِ امید کی صورت ترے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں
دیارِ دشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی کہ وہ رستے کدھر جائیں
تو کیا اے قاسمِ اشیاء یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں
جو بخشش میں ملے امجد تو اس خوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں
*****
اُلجھن : امجد اسلام امجد
وہ ایک سوچا ہوا ناز سا تکلم میں
نظر میں ایک جھجک سی کوئی بنائی ہوئی
لبوں پہ ایک تبسم ذرا لجایا سا
جبیں پہ بزمِ مروت سجی سجائی ہوئی
ڈھکا ڈھکا سا تکبر وہ بات سننے میں
تھی جس میں حسن کی نازش کہیں چھپائی ہوئی
بدن میں خوف کی لرزش بھی، اور دعوت بھی
گریز کرتی ہوئی اور قریب آئی ہوئی
کچھ اس کو دیکھ کے کھلتا نہ تھا کہ کیا ہے
فریب دیتی ہوئی یا فریب کھائی ہوئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں