اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 24 نومبر، 2013

وہ جس کے نام سے نبض حیات چلتی ہے ,, شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
  


وہ جس کے نام سے نبض حیات چلتی ہے

زمین کا ذکر ہی کیا کائنات چلتی ہے

یہ بات ذہن میں رکھئیے کہ جبر کے آگے

حسین بات چلائے تو بات چلتی ہے

حسین زبدہ نسل رسول ابن رسول

علی
 کے لاڈلے زھرا کے پھول ابن رسول


حسن حسین ہی اب نانا کے ہیں مصداق

کہےگا انکو ہراک با اصول ابن رسول

تیرا وجود ہے خود آیت و من الآیات

ہے
 کربلا تیری شان نزول ابن رسول

اگر تو دوش رسالت پہ کھیلنا چاہے

تو دیں رسول بھی سجدے کو طول ابن رسول

تیرے خلوص عمل سے سبق نہ سیکھ سکے

یہ دیں فروش یہ اجرت وصول ابن رسول

رسول بند نہ کرتے اگر یہ دروازہ

خدا گواہ ہوتا رسول ابن رسول

تجھے عدو بھی ملا تو عجیب سفلہ مزاج

نہ کوئی شرم نہ کوئی اصول ابن رسول

یہ قیصری تیرے پائےغیور کا دھوون

یہ سیم و زر تیرے قدموں کی دھول ابن رسول

ہے تیرے بیعت امامت میرے جنوں کا مقام

جبین عجز کا سجدہ قبول ابن رسول

نصیر کو نہ اٹھانا اب اپنی چوکھٹ سے

با حق فاطمہ زھرا بتول ابن رسول

شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

چشمِ حقیقت آشنا دیکھے جو حُسن کی کتاب --- بیؔدم شاہ وارثی ؒ



چشمِ حقیقت آشنا دیکھے جو حُسن کی کتاب 

دفترِ صد حدیثِ راز ہر ورقِ مجاز ہو 

سامنے روئے یار ہو سجدہ میں ہو سرِ نیاز
 
یونہی حریم ناز میں آٹھوں پہر نماز ہو 

اس کے حریم ناز میں عقل و خرد کو دخل کیا

جس کی گلی کی خاک کا ذرّہ جہانِ راز ہو

تیری گلی میں پا کے جا ، جائے کہاں تیرا گدا 

کیوں نہ وہ بے نیاز ہو تجھ سے جسے نیاز ہو

بیؔدم خستہ ہجر میں بن گئی جانِ زار پر 

جس نے دیا ہے دردِ دل کاش وہ چارہ ساز ہو



بیؔدم شاہ وارثی


  ؒ

چلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا "پروین شاکر"

"پروین شاکر"


چلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا


عشق کے اس سفر نے تو ، مجھ کو نڈھال کردیا


ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی


اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا


اے میری گل زمیں تجھے، چاہ تھی ایک کتاب کی


اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا


اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامانِ یار منتظر

بانوِ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا


ممکناں فیصلوں میں ایک ہجر کا ایک فیصلہ بھی تھا



ہم نے تو ایک بات کی اس نے تو کمال کردیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو



شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا


چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے


وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گِلا کیا


منسبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا

"پروین شاکر"


**
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ، ہوتا رہا ملال بھی

بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی

سب سے نظر بچا کے وہ، مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا

ایک دفعہ تو رک گئی، گردشِ ماہ و سال بھی

دل تو چمک سکے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے، ہاتھ کا یہ کمال بھی

اس کو نہ پا سکے تھے جب، دل کا عجیب حال تھا

اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچھ محال بھی

میری طلب تھا ایک شخص، وہ جو نہیں ملا تو پھر

ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں، میرے لیئے بھی ڈھال تھیں

اس کی ہنسی میں چھپ گیا، اپنے غموں کا حال بھی

گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب

اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی

اس کے بازؤں میں اور، اس کو ہی سوچتے رہے

جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی

شام کی نا سمجھ ہوا، پوچھ رہی ہے اک پتہ

موجِ ہوائے کوئے یار، کچھ تو میرا خیال بھی

پروین شاک*
 *