اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 17 جنوری، 2014

ادا جعفری ...ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے



ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی 
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے

جمعرات، 16 جنوری، 2014

لكھ دیا اپنے در پہ كسی نے اس جگہ پیار كرنا منع ہے Qateel shifai



لكھ دیا اپنے در پہ كسی نے اس جگہ پیار كرنا منع ہے
  پیار اگر ہو بھی جائے كسی كو اس كا اظہار كرنا منع ہے
   ان كی محفل میں جب كوئی جائے پہلے نظریں وہ اپنی جھكائے
    وہ صنم جو خدا بن گئے ہیں ان كا دیدار كرنا منع ہے
   جاگ اٹھیں گے تو آہیں بھریں گے حسن والوں كو رسوا كریں گے
  سو گئے ہیں جو فرقت كے مارے    ان كو بیدار كرنا منع ہے
   ہم نے كی عرض اے بندہ پرور كیوں ستم ڈھا رہے ہو یہ ہم پر
   بات سن كر ہماری وہ بولے ہم سے تكرار كرنا منع ہے
   سامنے جو كھلا ہے جھرونكا آنا جانا قتیل ان كا دھوكا
   اب بھی اپنے لیے اس گلی میں میں شب دیدار كرنا منع ہے
****
جب درمیاں ہمارے، یہ سنگدل زمانہ، دیوار چن رہا تھا
میں ضبط کی حدوں میں، تیری خموشیوں کی گفتار سُن رہا تھا

عرض و طلب کا نغمہ، کل رات جب چھیڑا تھا اک سازِ بے صدا پر
تھا محو میں بھی لیکن، سر بیخودی میں تو بھی، ہر بار دُھن رہا تھا

روزِازل سے مجھ کو، بت خانہِ وفا سے، تھی اِس لئے عقیدت
بِکھرے ہوئے بُتوں سے، میں اپنی عظمتوں کے، شہکار چُن رہا تھا

معلوم تھا یہ کس کو، غم کی سیاہ راتیں، کاٹے نہ کٹ سکیں گی
میں آس پاس اپنے، ہالا تسلیوں کا بیکار بُن رہا تھا

جب پو پھٹی تو بڑھ کر، کچھ نا اُمیدیوں نے مجھ سے قتیل پوچھا
کیا تو ہی ہے جواب تک، موہوم آہٹوں کی جھنکار سن رہا تھا

***
بے کیف جوانی میں کیا کیا سامان خریدے جاتے ہیں
آہوں کے بگولے اشکوں کے طوفان خریدے جاتے ہیں

دل سے تو کوئی کیا چاہے گا اس اُجڑے ہوئے کاشانے کو
مجبوری کا یہ عالم ہے مہمان خریدے جاتے ہیں

ہر چیز کا سودا چکتا ہے دن رات بھرے بازاروں میں
جھنکاریں بیچی جاتی ہیں ایمان خریدے جاتے ہیں

اک بات بھی ہوتی تُل جاتے ہم سونے کی میزانوں میں
افسوس یہاں دو کوڑی میں انسان خریدے جاتے ہیں.


***
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا

Zindagi Main To Sabhi Pyaar Kiya Kartay Hain
Main To Mar Kar Bhi Meri Jaan Tujhay Chahoun Ga

تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھ کو
یہ میری عمر محبت کے لیے تھوڑی ہے

To Mila Hay To Yeh Ahsaas Hua Hay Mujhko
Yeh Meri Umer Muhabbat k Liye Thori Hay

اک ذرا سا غمِ دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ سانس بھی تیرے لیے رکھ چھوڑی ہے

Ek Zara Sa Gham-e-Doraan Ka Bhi Haq Hay Jis Par
Main nay Woh Saans Bhi Tere Liye Rakh Chori Hay

تجھ پہ ہو جاؤں گا قربان تجھے چاہوں گا
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا

Tujh Pah Ho Jaun Ga Qurbaan Tujhay Chahoun Ga
Main To Mar Kar Bhi Meri Jaan Tujhay Chahoun Ga


*****

نگاہوں میں خمار آتا ہوا محسوس ہوتا ہے
تصور جام چھلکاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Nigahoun Main Khumaar Ata Hua Mehsos hota hay
Tasawur-e-Jaam Chalkata hua Mehsoos Hota Hay

خرام ناز۔ اور اُن کا خرام ناز ؟ کیا کہنا
زمانہ ٹھوکریں کھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Khram-e-Naaz. aur unka Kharam-e-Naaz? Kya Kehna
Zamana Thokrain Khata Hua Mehsos Hota Hay

تصور ایک ذہنی جستجو کا نام ہے شاید
دل اُن کو ڈھونڈ کر لاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Tasawur Aik Zehni Justaju Ka Naam Hay Shayad
Dil Unko Dhound Kar Laata hua Mehsoos Hota Hay

کسی کی نقرئی پازیب کی جھنکار کے صدقے
مجھے سارا جہاں گاتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Kisi Ki Naqrai Pazaib Ki Jhankaar k Sadqay
Mujhay Sara Jahan Gaata Hua Mehsoos Hota Hay

قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی
کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

Qateel Ab Dil Ki Dharkan Ban Gayi Hay Chaap Qadmoun Ki
Koi Meri Taraf Aata Hua Mehsoos Hota Hay

Jon elia ... جب تری جان ہو گئی ہو گی


علامہ جون ایلیا (14 دسمبر، 1937ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلی مہارت حاصل تھی۔

جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی

شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی

اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی

ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی

بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی

اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہوگی

اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہوگی

کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہوگی
***************
ک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں : جون ایلیا

اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
********
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا

جو بھی ہو تم پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا

جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خُدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں با خُدا نہیں کیا

نسبت علم ہے بہت حاکمِ وقت کو ہے عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا

اداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے Amjad Islam amjad


اداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے
نہیں تھا کُچھ سرِ محفل چراغِ شام سے پہلے

حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
پہنچنا ہے سرِ منزل چراغِ شام سے پہلے

دِلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اُٹھتی ہے
عجب ہلچل، عجب جِھل مِل چراغِ شام سے پہلے

وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے ، عصرِ آخرِ شب میں
جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

ہم اپنی عُمر کی ڈھلتی ہُوئی اِک سہ پہر میں ہیں
جو مِلنا ہے ہمیں تو مِل، چراغِ شام سے پہلے

ہمیں اے دوستو اب کشتیوں میں رات کرنی ہے
کہ چُھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

سَحر کا اوّلیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی
ہے دن کا بھی تو مُستَقبِل، چراغِ شام سے پہلے

نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے !
اُلجھتی کیوں ہے اِتنی گلِ چراغِ شام سے پہلے

محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھردی !
کہ جل اُٹھتا ہے امجد دِل، چراغِ شام سے پہلے

امجد اسلام امجد