علامہ جون ایلیا (14 دسمبر، 1937ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلی مہارت حاصل تھی۔
جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی
شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی
اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہوگی
اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہوگی
کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہوگی
***************
ک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں : جون ایلیا
اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
********
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
جو بھی ہو تم پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خُدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں با خُدا نہیں کیا
نسبت علم ہے بہت حاکمِ وقت کو ہے عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی
شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی
اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی
ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی
بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہوگی
اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہوگی
کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہوگی
***************
ک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں : جون ایلیا
اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
********
دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
جو بھی ہو تم پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خُدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں با خُدا نہیں کیا
نسبت علم ہے بہت حاکمِ وقت کو ہے عزیز
اُس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں