اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 31 جولائی، 2015

ہونٹوں پر اردو کے بہترین اشعار



ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہکاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہو لوگوں کو سماؤں کیسے
***

سنے کون قصۂ درد دل ، مرا غمگسار چلا گیا ۔ کلام پیر نصیر الدین نصیر

سنے کون قصۂ درد دل ، مرا غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا ، وہ وفا شعار چلا گیا
وہ سخن شناس ، وہ دور بیں ، وہ گدا نواز ، وہ مَہ جبیں 
وہ حسیں ، وہ بحر علوم دیں ، مرا تاج دار چلا گیا
جسے نورِ مہرِ علی کہیں ، وہ جس کا نام ہے محیِ دیں
مجھے کیا خبر کہاں لوٹ کر ، وہ مری بہار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی ، جو تہہ مزار چلا گیا
کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں ، کہ نہں رہا کوئی قدر داں
کہاں اب وہ شوق کی مستیاں کہ وہ پُروقار چلا گیا
جسے میں سناتا تھا دردد ، وہ جو پوچھتا تھا غمِ دُروں
وہ گدا نواز بچھڑگیا ،وہ عطا شعار چلا گیا
بہیں کیوں نصیرؔ نہ اشکِ غم، رہے کیوں نہ لب پہ میرےفغاں
مجھے بے قرار وہ چھوڑ کر ، سرِ رہ گزار چلا گیا

جون ایلیا کی منتخب غزلیں اور شاعری


ھی گر آنے میں مصلحت حائل
یاد آنا کوئی ضروری تھا

دیکھیے ہو گئی غلط فہمی
مسکرانا کوئی ضروری تھا

لیجیے بات ہی نہ یاد رہی
گُنگُنانا کوئی ضروری تھا

گُنگُنا کر مری جواں غزلیں
جھُوم جانا کوئی ضروری تھا

مجھ کو پا کر کسی خیال میں گُم
چھُپ کے آنا کوئی ضروری تھا

اُف وہ زلفیں ، وہ ناگنیں ، وہ ہنسی
یوں ڈرانا کوئی ضروری تھا

اور ایسے اہم مذاق کے بعد
رُوٹھ جانا کوئی ضروری تھا
***
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے
میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے
تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے
اس کی گُل گشت سے روش بہ روش
رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے
تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے
کون ہے جس کو جاں عزیز نہیں؟
لے ترا جاں نثار اٹھتا ہے
صف بہ صف آ کھڑے ہوئے ہیں غزال
دشت سے خاکسار اٹھتا ہے
ہے یہ تیشہ کہ ایک شعلہ سا
بر سرِ کوہسار اٹھتا ہے
کربِ تنہائی ہے وہ شے کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے
تو نے پھر کَسبِ زَر کا ذکر کیا
کہیں ہم سے یہ بار اٹھتا ہے
لو وہ مجبورِ شہر صحرا سے
آج دیوانہ وار اٹھتا ہے
اپنے ہاں تو زمانے والوں کا
روز ہی اعتبار اٹھتا ہے
جون اٹھتا ہے، یوں کہو، یعنی
میر و غالب کا یار اٹھتا ہے
***
نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو، رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمھاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھروسا کیوں کریں ہم

چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچا
تمھیں راتب مہیا کیوں کریں ہم

جمعرات، 30 جولائی، 2015

مرزا اسد اللہ خاں غالب کی منتخب غزلیں ۔ بہترین اردو شاعری



دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نے جانتا دعا کیا ہے

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

غالب
***
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے 'کیا'؟

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا

***
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل ؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے ؟

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

***
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا

رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا

تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ

سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

۔۔۔۔۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
۔۔۔۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک

تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک

EID POETRY IN ROMAN URDU AND URDU عدید پر منتخب پسندیدہ اشعار



دیکھا حلال عید تو معحسوس یوں ہوا
لو ایک سال اور جدائی کا کٹ گیا
Dekha halale Eid to mehsos yoon hova
lo ek sal awr judai ka kat gaya
***
دیکھا عید کا چاند تہ مانگی یہ دعا رب سے
دے دے تیرا ساتھ عید کا تحفہ سمجھ کے
dekha eid ka chand to mangi yeh dua rab se
de de tera sath eid ka tuhfa samajh ke
***
تعری خواہش بس تیری امید کارتا ہے کوئی
دیکھ کر تجھ کہ معری جان عید کرتا ہے کوئی
teri khawahish bas teri umeed karta he koi
dekh kr tujh ko meri jaan eid karta he koi
***
tere kehne pe lagai he yeh mehndi main ne
eid par ab na to aaya to qayamat ho gi
***
Eid ke chand ko dekhe na koi mere siwa
is ke deedar ko ik sal guzara main ne
***
tere chehre se hi talooh ho ga eid ka chand
hamain bhi hasrat he is bar eid manane ki
***
shayad tum aao main ne isi intezar main
ab ke baras ki eid bhi tanha guzar di
***
yeh eid to phir se lot aayi
jo bichre hain wo kab lotain ge
***
kitni eidain guzar gai tum bin ab khuda ke liye na tarpana
dekho phir eid aane wali he eid ke sath tum bhi a jana
***
eid un ki guzri jin ko deddare yar naseeb hova
hamari to eid guzar gai zikre yar karte karte
****
hata kar zulf chehre se na chat par sham ko jana
kahain koi eid na kar le abhi ramzan baqi he

ناصر کاظمی کی منتخب غزلیں



غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو

آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو

میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو

میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو

دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو

میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو

میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو

ناصر اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
ناصر کاظمی
۔۔۔۔
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیں‌اداس بہت

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت

کیوں نہ روؤں تری جدائی میں
دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت

چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی
ہے غریبی میں یہ لباس بہت

وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ
ہے یہاں درد کی اُگاس بہت

سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر
یاد آتی ہے گل کی باس بہت