غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو
دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو
ناصر اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے توناصر کاظمی
میری زندگی ہے تو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو
دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو
ناصر اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے توناصر کاظمی
۔۔۔۔
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیںاداس بہت
رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت
کیوں نہ روؤں تری جدائی میں
دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت
چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی
ہے غریبی میں یہ لباس بہت
وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ
ہے یہاں درد کی اُگاس بہت
سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر
یاد آتی ہے گل کی باس بہت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں