اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعہ، 28 اگست، 2015

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا ۔ پروین شاکر

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے، اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروینؔ شاکر

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں ۔ پروین شاکر

خوشی کی بات ہے یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اِک پھول کھلتے اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی
میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی دل میں تیرا
اُترتا ایک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں، وہ منزل ہے الفت میں
میں آنکھیں بند کر کے تجھ کو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کس طرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں
پروینؔ شاکر

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح ۔ پروین شاکر

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اُتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح
ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر رُوح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہُوئی کتابوں کی طرح
کون جانے نئے سال میں تُو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے، ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب، مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو، مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
پروینؔ شاکر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی ۔ کلام پروین شاکر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مری ہرجائی کی
تیرا پہلو بھی تیرے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹا ہے 
جاگ اٹھتی ہے عجب خواہش انگڑائی کی
پروین شاکر

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ۔ نعتیہ کلام مولانا الطاٖ ف حسین حالی

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
مولاناالطاف حسین حالی

کہنا بڑوں مانو ۔ مولانا الظاف حسین حالی

کہنا بڑوں مانو
اے بھولے بھالے بچو، نادانو، ناتوانو
سر پر بڑوں کا سایہ، سایہ خدا کا جانو
حکم ان کا ماننے میں برکت ہے، میری مانو
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ اور استاد، سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی، حق میں تمہارے نعمت
کڑوی نصیحتوں میں ان کی بھرا ہے امرت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ماں باپ کا عزیزو، مانا نہ جس نے کہنا
دشوار ہے جہاں میں عزت سے اس کا رہنا
ڈر ہے پڑے نہ صدمہ ذلت کا اس کو سہنا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
دنیا میں کی جنہوں نے ماں باپ کی اطاعت
دنیا میں پای عزت، عقبی میں پای راحت
ماں باپ کی اطاعت ہے دو جہاں کی دولت
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
تم کو نہیں خبر کچھ اپنے برے بھلے کی
جتنی ہے عمر چھوٹی اتنی ہے عقل چھوٹی
ہے بہتری اسی میں جو ہے بڑوں کی مرضی
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو
ہے کوی دن میں پیارو وہ وقت آنے والا
دنیا کی مشکلوں سے تم کو پڑے گا پالا
مانے گا جو بڑوں کی جیتے گا وہ ہی پالا
چاہو اگر بڑای، کہنا بڑوں کا مانو

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت . مولانا الظاف حسین حالی

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت
واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت
رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت

جمعرات، 27 اگست، 2015

ایک سبق آموز تحریر جو آپ کو ہمیشہ یاد رہے گی

آج کی بات : اسے توجہ سے پڑھیں!
ایک بار 50 لوگوں کےگروپ نے ایک سیمینار میں شرکت کی،
اچانک ﻣﻘﺮﺭ خاموش ہوگیا، اور ایک گروپ ایکٹیویٹی کرنے کا کہا گیا،ہر ایک کو ایک غبارہ دیا گیا،
اور مارکر کا استعمال کرتے ہوئے اس پر اپنا نام لکھنے کو کہا گیا،
اس کے بعد سارے غبارے ایک کمرے میں ڈال دئیے گئے،
اس کےبعد سب کو پانچ منٹ کےاندر اندر اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈنے کو کہا گیا،
سب لوگ بدحواسی میں ادھر ادھر اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگے،
کچھ لوگوں کے نام والے غبارے دوسروں کے پاؤں کے نیچے آکر پھٹ گئے،
مگر کوئی بھی اپنا مطلوبہ غبارہ تلاش نہ کر سکا،
پھر دوباره یہی عمل دهرايا گیا لیکن اس دفعہ ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی بھی غبارہ لیں اور اس کے نام والے شخص کو دے دیں،
فقط چند منٹوں میں سب لوگوں کے پاس اپنے نام والا غبارہ موجود تھا،
ﻣﻘﺮﺭ نے سب کو مخاطب کیا اور کہا ،
بالکل اسی طرح ہماری زندگی ہے، ہم بدحواسی میں اپنی خوشیاں ڈھونڈھتے ہیں، اس افراتفری اور آپا دھڑاپی میں ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم دوسروں کی خوشیاں اپنے پاؤں تلے کچلتے چلے جاتے ہیں،
ہم لوگ یہ نہیں سمجھتے ہماری خوشیاں دوسروں کی خوشیوں سے وابستہ ہیں،
دوسروں کو ان کی خوشیاں دے دیں تو ہمیں با آسانی ہماری خوشیاں مل سکتی ہیں، اور یہ ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے

بدھ، 19 اگست، 2015

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا . کلام حسرت موہانی

نظر پھر نہ کی اس پہ دل جس کا چھینا
محبت کا یہ بھی ہے کوئی قرینا

وہ کیا قدر جانیں دل ِ عاشقاں کی
نہ عالم، نہ فاضل، نہ دانا، نہ بینا

وہیں سے یہ آنسو رواں ہیں، جو دل میں
تمنا کا پوشیدہ ہے اک خزینا

یہ کیا قہر ہے ہم پہ یارب کہ بے مے
گزر جائے ساون کا یوں ہی مہینا

بہار آئی سب شادماں ہیں مگر ہم
یہ دن کیسے کاٹیں گے بے جام و مینا​
 

منگل، 18 اگست، 2015

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ۔ کلام مولانا حسرت موہانی

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے
بار بار اُٹھنا اسی جانب نگاہ ِ شوق کا 
اور ترا غرفے سے وُہ آنکھیں لڑانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا 
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
جان کرسونا تجھے وہ قصد ِ پا بوسی مرا 
اور ترا ٹھکرا کے سر، وہ مسکرانا یاد ہے
تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو ازراہِ لحاظ
حال ِ دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے
جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے
غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے
آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر ِ فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رُلانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بُلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
آج تک نظروں میں ہے وہ صحبتِ راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے،تیرا بلانا یاد ہے
میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں،پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے
شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مِرا وہ چھیڑنا، گُدگدانا یاد ہے
با وجودِ ادعائے اتّقا حسرت مجھے
آج تک عہدِ ہوس کا وہ فسانا یاد ہے
(مولانا حسرت موہانی)

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا ۔ کلام داغ دہلوی

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کرینگے ،نباہینگے، بات مانینگے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بیدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ تاچھ تھی کسی کی وہاں نہ آو بھگت
تمہاری بزم میں کل ایہتمام کس کا تھا
انھیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف آپ ہی کرتے تو نام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرا نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں
خیال میرے دل کو صبح وشام کس کا تھا
اگرچہ دیکھنے والے تیرے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیرے بام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بےوفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

یہ دِل یہ پاگل دِل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی ۔۔ کلام محسن نقوی

یہ دِل یہ پاگل دِل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اِس دشت میں اِک شہر تھا وہ کیا ہُوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تُو کون ہے اُس نے کہا 146آوارگی
لوگو بھلا اُس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے اپنی سُنا آوارگی
اِک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر مَیں نے لکھا آوارگی
اُس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمانِ وفا
اِس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی
کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا مَیں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

کبهی کتابوں میں پهول رکهنا، کبهی درختوں په نام لکهنا ۔ کلام حسن رضوی

کبهی کتابوں میں پهول رکهنا، کبهی درختوں په نام لکهنا
ہمیں بهی ہے یاد آج تک وه نظر سے حرف سلام لکهنا
وه چاند چہرے، وه بہکے باتیں، سلگتی دن تهے، مہکتی راتیں
وه چهوٹے چهوٹے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکهنا
گلاب چهروں سے دل لگانا، وه چپکے چپکے نظر ملانا
وه آرزؤں کے خواب بننا، وه قصه ناتمام لکهنا
گئی رتوں میں "حسن" ہمارا، بس ایک ہی تو یه مشغله تها
کسی کے چہرے کو صبح کهنا، کسی کے زلفوں کو شام لکهنا
میری نگر کے فضاؤ کہیں جو ان کا نشان پاؤ
تو پوچهنا یه کہاں بسی ہو، کهاں ہے ان کے قیام لکهنا

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا ۔ نغمہ نگار اند بخشی

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
مری آورگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا

بڑا دلکش، بڑا رنگین ہے یہ شہر کہتے ہیں
یہاں پر ہیں ہزاروں گھر، گھروں میں لوگ رہتے 
مجھے اس شہر میں گلیوں کا بنجارہ بنا ڈالا

میں اس دنیا کو اکثر دیکھ کر حیران ہوتا ہوں
نہ مجھ سے بن سکا چھوٹا سا گھر دن رات روتا ہوں
خدایا تونے کیسے یہ جہاں سارا بنا ڈالا

مرے مالک مرا دل کیوں تڑپتا ہے، سلگتا ہے
تری مرضی، تری مرضی پہ کس کا زور چلتا ہے
کسی کو گل کسی کو تو نے انگارہ بنا ڈالا

یہی آغاز تھا میرا، یہی انجام ہونا تھا
مجھے برباد ہونا تھا، مجھے ناکام ہونا تھا
مجھے تقدیر نے تقدیر کا مارا بنا ڈالا

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
مری آورگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ ۔ فیض احمد فیض


مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

جمعرات، 6 اگست، 2015

بہادر شاہ ظفر کی منتخب شاعری

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخم خنجر عشق
کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
کہا عیسیٰ نے قم کشتے کو تیرے
کچھ اب تو نے بھی فرمایا تو ہوتا
نہ بولا ہم نے کھرکایا بہت در
ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا
یہ نخل آہ ہوتا بید ہی کاش
نہ ہوتا گو ثمر سایا تو ہوتا
جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر
وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
کیا تھا گر مریض عشق مجھ کو
عیادت کو کبھی آیا تو ہوتا
دل اس کی زلف میں الجھا ہے کب سے
ظفر اک روز سلجھایا تو ہوتا
بہادر شاہ ظفر

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے ۔ ادا جعفری


ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے 
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی 
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے
ادا جعفری

نامور شعرا کے مشہور زمانہ ایک سو اشعار / URDU ADAB KE 100 MASHOOR ASHAAR

نامور شعرا کے مشہور زمانہ ایک سو اشعار جنہیں بہت پسند کیا گیا گیا اور سراہا گیا۔ اردو ادب میں یوں تو کئی نام ہیں لیکن شہرت اور عزت بہت کم شعرا کے ھصے میں آئی۔ یہاں ان مشہور شعرا کے ایک سو اشعار پیش کیے جاتے ہیں جنہیں نہ صرف عالمی شہرت ملی بلکہ آج بھی یہ اشعار موقع کی مناسبت سے پڑھے جاتے ہیں ۔ علامہ اقبال کی یہ شعر تو ہر ایک کویاد ہوگا
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبالؒ

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں 
مرزا غالب

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد 
مولانا محمد علی جوہر

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرتقی میر

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ 
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ 
حضرت علامہ اقبالؒ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو 
کلیم عاجز

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح

رندِخراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق

دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبالؒ

کعبے کس منہ سے جا وگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی

چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی

پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک ہ بے اثر
اقبالؒ

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبالؒ
مداعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے 
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
فصل بہار آئ، پیو صوفیو شراب 
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے 
آتش

آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا 
آتش

مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے 
مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے 
آتش

امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی 'ہاں' بھی اب 'نہیں' معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت

داور حشر میرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ 
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں 
محمد دین تاثیر

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی 
یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں 
فراق گو رکھپوری

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئ 
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئ 
عزیز الحسن مجذوب

وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا 
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی 
مہاراج بہادر برق

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا 
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے 
یگانہ چنگیزی

دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا 
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا 
عزیز لکھنوی

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن 
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائ کا 
عزیز لکھنوی

دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ
نظام رام پوری

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر الہ آبادیؒ

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں 
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا 
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادیؒ

آ عندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے 
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا 
اقبالؒ

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے 
بندہ پرور جائیے، اچھا ، خفا ہو جائیے 
حسرت موہانی

تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں 
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا 
مضطر خیر آبادی

دیکھ آءو مریض فرقت کو 
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے 
حسن بریلوی

خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں 
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی

حضرتِ ڈارون حقیقت سے نہایت دور تھے
ہم نہ مانیں گے کہ آباء آپ کے لنگور تھے
اکبر الہ آبادی

دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار 
جب تک شراب آئے کئ دور ہو گئے 
شاد عظیم آبادی

ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو 
راست گوئ میں ہے رسوائ بہت 
حالی

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں 
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں 
داغ دہلوی

دی موء ذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات 
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا 
داغ دہلوی

گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد 
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں 
امیر مینائی

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ 
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے 
شیفتہ

زرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے
علامہ اقبالؒ

ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ 
پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے 
شیفتہ

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی 
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے 
شیفتہ

لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار 
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو 
میر انیس

شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے 
زباں تھک گئ مرحبا کہتے کہتے 
مومن خان مومن

الجھا ہے پاءوں یار کا زلف دراز میں 
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا 
مومن خان مومن

اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا 
کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا 
محمد رضا برق

کوچہ ء عشق کی راہیں کوئ ہم سے پوچھے 
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے 
وزیر علی صبا

دام و در اپنے پاس کہاں 
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں 
غالب

گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں 
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی 
غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد 
پر طبیعت ادھر نہیں آتی 
غالب

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے 
ایسا بھی کوئ ہے کہ سب اچھا کہیں جسے 
غالب

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل 
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 
غالب

اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں 
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کاررواں ہو کر 
خواجہ وزیر

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں 
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا 
ذوق

ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائ سن کی سی 
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی 
اکبر الہ آبادی

فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں 
اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے 
سودا

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں 
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری 
اقبال

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 
(علامہ اقبال)

یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے
(شاد عظیم آبادی)

حیات لے کے چلو، کائینات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
(مخدوم محی الدین)

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
(میرتقی میر)

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے 
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
(اقبال)
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
(مرزاغالب)

دائم آباد رہے گی دنیا 
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہو گا
(ناصرکاظمی)

نیرنگئ سیاست دوراں تو دیکھئے 
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے 
( محسن بھوپالی )

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر 
پھر ملیں گے اگر خدا لایا 
( میر تقی میر)

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں 
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے 
( میر تقی میر)

بہت کچھ ہے کرو میر بس 
کہ اللہ بس اور باقی ہوس 
( میر تقی میر)

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہی

راہ میں ان سے ملاقات ہوئی 
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی
مصطفی ندیم

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
میر تقی میر

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِِعشق احتیار کیا
میر تقی میر

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے 
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ساغر صدیقی

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ

فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں 
اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے 
سودا

دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن 
رات کٹتی نظر نہیں آتی 
سید محمد اثر

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب 
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا 
میر تقی میر

میرے سنگ مزار پر فرہاد 
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد 
میر تقی میر

ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ 
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا 
قائم چاند پوری

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی

ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا 
یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا 
نظیر اکبر آبادی

پڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے 
جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے 
نظیر اکبر آبادی

دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی

کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے
اکبر الہ آبادی

نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی
اکبر الہ آبادی

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
امیر مینائی

اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
ماہر القادری

کہہ تو دیا، اُلفت میں ہم جان کے دھوکا کھائیں گے
حضرتِ ناصح!خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟
ماہر القادری

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر
ساغر صدیقی

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ساغر صدیقی

محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
کچھ گفتگو تو کھل کے کرینگے خدا کے ساتھ
عبدالحمید عدم

عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
حفیظ میرٹھی

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی 
گستاخ رام پوری

چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا مُنہ
اے شبِ ہجر تیرا کالا مُنہ
بات پوری بھی مُنہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا مُنہ 
مومن خان مومن