ساغرصدیقی کے خوبصورت اشعار
یہ دستور وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں
صدائے قرب دی جن کو انہی کو دور دیکھا ہے
کہیں لخت جگر کھانے سے ساغر بھوک مٹتی ہے ؟
لہو کے گھونٹ پی کر بھی کوئی مخمور دیکھا ہے ؟
وہاں چاندنی کے قدم ڈولتے ہیں
جہاں تیرے نقش قدم سو رہے ہیں
ہر اک ذہن میں ہے خدائی کا دعوی
ہر اک آستیں میں صنم سو رہے ہیں
دوش ساغر نے تکیہ بنایا انہیں
جتنے پتھر گرے ان کی دیوار سے
بکی کس کی عصمت ، لٹی کس کی دنیا
تمہیں کیا ؟ تم اپنی دوکانیں سجاؤ
ہمیں فرصت آہ تک نہیں ہے
انہیں یہ تکلف کہ نغمے سناؤ
اے پاسبان گلشن تجھ کو خبر نہیں ہے
شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے
جھوم کر دو قدم جب چلا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی
کہیں لخت جگر کھانے سے ساغر بھوک مٹتی ہے ؟
لہو کے گھونٹ پی کر بھی کوئی مخمور دیکھا ہے ؟
وہاں چاندنی کے قدم ڈولتے ہیں
جہاں تیرے نقش قدم سو رہے ہیں
ہر اک ذہن میں ہے خدائی کا دعوی
ہر اک آستیں میں صنم سو رہے ہیں
دوش ساغر نے تکیہ بنایا انہیں
جتنے پتھر گرے ان کی دیوار سے
بکی کس کی عصمت ، لٹی کس کی دنیا
تمہیں کیا ؟ تم اپنی دوکانیں سجاؤ
ہمیں فرصت آہ تک نہیں ہے
انہیں یہ تکلف کہ نغمے سناؤ
اے پاسبان گلشن تجھ کو خبر نہیں ہے
شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے
جھوم کر دو قدم جب چلا آدمی
کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے
سہہ گیا آدمی کی جفا آدمی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں