اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 13 ستمبر، 2015

محسن نقوی کی منتخب شاعری

چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا
اک درد کا میلہ ہے ، لگا ہے دل و جاں‌میں
اک روح کی آواز کا رستہ مجھے دینا
اک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اس کا دلاسا مجھے دینا
محسن نقوی
اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مجروح ہوئی شاخ سنبھالو
اس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھر تے رہو لیکن
ممکن ہو تو اک دن میرا چہرہ مجھے دینا
محسن نقوی
شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دِیے تُند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر!
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
محسن نقویاُجاڑ رُت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبسِ ہوَا سے یہ پوچھتا محسنؔ
مِلا ہے کیا اُسے کلیوں کو بے نمو کر کے
محسن نقوی
وفا میں اب یہ ہُنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نا کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا؟
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ
کبھی یہ جشن سرِ راہگزار کرنا ہے
وہ مسکرا کے نٔے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا کہ اُسے شرمسار کرنا ہے
مثالِ شاخِ برہنہ خزاں کی رُت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ وبار کرنا ہے
ترے فراق مین دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے
چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے
کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں !
قبا سمجھ کے بدن کو تار تار کرنا ہے
خدا خیر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دُشمن سے پیار کرنا ہے
محسن نقوی
راہِ وفا میں اذیتِ شناسائیاں نہ گئیں
کسی بھی رت میں ہماری اداسیاں نہ گئیں
تنی ہے ابر کی چادر بھی آسماں پہ مگر
شعاعِ مہر ، تیری بے لباسیاں نہ گئیں
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بدحواسیاں نہ گئیں
خدا خبر کہاں کونجوں کے قافلے اترے
سمندر کی طرف بھی تو پیاسیاں نہ گئیں
خزاں میں بھی تو مہکتی غزل پہن کے ملا
مزاجِ یار تیری خوش لباسیاں نہ گئیں
بسنت رت میں بھی مندر اداس تھے محسن
کہ دیوتاؤں سے ملنے کو داسیاں نہ گئیں
محسن نقوی
باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ میری اپنی انا کا تھا
گم سم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں
شائید وہ منتظر کسی آندھی ہوا کا تھا
اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیئے میں غرور انتہا کا تھا
دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں
سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا
لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخ بے لباس
دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا
اس کو غلافِ روح میں رکھا سنبھال کر
محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا
محسن نقوی
اسی کو صبح مسافت نے چُور کر ڈالا
وہ آفتاب جسے دوپہر میں ڈھلنا تھا
عجب نصیب تھا محسن کہ بعد مرگ مجھے
چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا
محسن نقوی
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ سے نغمہءِ زارِ حیات میں
جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں جو چھنک اٹھیں
تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک
جہاں چاند، ماند نہ ہو کبھی، جہاں چاندنی کی ردا بنے
میری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک
جہاں صرف حکمِ یقیں چلے، جہاں بے نشاں ہو قیاس تک
جہاں آدمیت کے ناطق و لب پہ نہ شہرِ یار کا خوف ہو
جہاں سر سرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی ہراس تک
جہاں وہم نہ ہو، نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو
جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ
جہاں جگنوؤں کو ہوا دیکھاتی ہو راستہ
جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رت کو حسد نہ ہو
جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی قد نہ ہو
جہاں خواب آنکھوں جگمگائیں تو
جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں تیرگی کا گزر نہ ہو
کوئی رات ایسی بسر نہ ہو کہ بشر کو اپنی خبر نہ ہو
جہاں داغ داغ سحر نہ ہو
جہاں کشتیاں ہوں رواں دواں تو سمندروں میں بھنور نہ ہو
جہاں برگ و بار سے اجنبی کوئی شاخ ، کوئی شجر نہ ہو
جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو بارشوں کے عذاب کا ڈر نہ ہو
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ غمِ جہاں کا اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں ، غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمِ کائنات کی تلخیاں، کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں
جہاں میرے سانس کی تازگی تیری چاہتوں کے کنول میں ہو
تیرا حسن میری غزل میں ہو
جہاں کائنات کی اک صدف، شب و روز کےکسی پل میں‌ہو
جہاں نوحہءِ غمِ زندگی، میری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو
جہاں لوحِ خاک پہ عمر بھر کسی بے گناہ کے خون کا
کوئی داغ کوئی نشاں نہ ہو
کوئی شہر ایسا کبھی کہیں
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں
جہاں بانجھ رت میں بھی گل کھلیں
جہاں چاہتوں کے ہجوم میں کبھی گیت امن کے گاؤں میں
جہاں زندگی کا رجز پڑہوں ، جہاں بے خلل گنگناؤں میں
جہاں موج موج کی اوٹ میں، تو کرن بنے، مسکراؤں میں
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
محسن نقوی
کبھی جو چھڑ گئی یادِ رفتگاں محسن
بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن
ہوا نے راکھ اُ ڑائی تو دل کو یاد آیا
کہ جل بجھیں میرے خوابوں کی بستیاں محسن
کھنڈر ہے عہدِ گزشتہ نہ چھو نہ چھیڑ اسے
کھلیں تو بند نہ ہو اس کی کھڑکیاں محسن
بجھا ہے کون ستارا کہ اپنی آنکھ کے ساتھ
ہوئے ہیں سارے مناظر دھواں دھواں محسن
نہیں کہ اس نے گنوائے ہیں ماہ و سال اپنے
تمام عمر کٹی یوں بھی رائیگاں محسن
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھیں جسے میرے کرچیاں محسن
کہیں سے اس نے بھی توڑا ہے خود سے ربطِ وفا
کہیں سے بھول گیا میں بھی داستاں محسن
محسن نقوی
فنکار ہے تو ہاتھ میں سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
اب اختتام کو ہے سخی حرفِ التماس
کچھ ہے تو اب وہ سامنے دستِ دعا کے لا
پیامِ وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
آرائشِ جراحتِ یاراں کی بزم ہے
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا
محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا کے لا
محسن نقوی
اب اے میرے اِحساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم میرا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو ۔۔
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا!
جب وقت کی مرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو
اُس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھرتے رہو ، لیکن
ممکن ہو تو اِک دن مِرا چہرہ مجھے دینا
چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اِک زخم تو ایسا مجھے دینا
شب بھر کی مسافت ہے گواہی کی طلبگار
اے صبحِ صفر ۔۔اپنا ستارہ مجھے دینا
اِک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جان میں
اِک روح کی آواز کہ "رستہ مجھے دینا"
اِک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اُس کا دِلاسہ مجھے دینا
محسن نقوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں