شب وصال کے روز فراق میں کیا کیا
شب وصال کے روز فراق میں کیا کیا
نصیب مجھ سے میرے انتقال لیتے ہیں
ترے اسیر جو صیاد کرتے ہیں فریاد
تو پھر وہ دم بھی زیر دام لیتے ہیں
ہم ان کے زور کے قائل ہیں زور بازو میں
جو عشق میں دل مضطر کو تھام لیتے ہیں
جھکائے ہے سر تسلیم ماہ نو پر وہ
غرور حسن سے کس کا سلام لیتے ہیں
ترے قتیل بتاتے نہیں تجھے قاتل
جب ان سے پوچھو اجل ہی کا نام لیتے ہیں
قمر کا داغ بھلا آئے کس حساب میں داں
وہ مول ایسے ہزاروں غلام لیتے ہیں
ہمارے ہاتھ سے ذوق وقت مے نوشی
ہزار ناز سے وہ ایک جام لیتے ہیں
محمد ابراہیم ذوق
نصیب مجھ سے میرے انتقال لیتے ہیں
ترے اسیر جو صیاد کرتے ہیں فریاد
تو پھر وہ دم بھی زیر دام لیتے ہیں
ہم ان کے زور کے قائل ہیں زور بازو میں
جو عشق میں دل مضطر کو تھام لیتے ہیں
جھکائے ہے سر تسلیم ماہ نو پر وہ
غرور حسن سے کس کا سلام لیتے ہیں
ترے قتیل بتاتے نہیں تجھے قاتل
جب ان سے پوچھو اجل ہی کا نام لیتے ہیں
قمر کا داغ بھلا آئے کس حساب میں داں
وہ مول ایسے ہزاروں غلام لیتے ہیں
ہمارے ہاتھ سے ذوق وقت مے نوشی
ہزار ناز سے وہ ایک جام لیتے ہیں
محمد ابراہیم ذوق
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں