اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

منگل، 9 فروری، 2016

فردِ جرم .. کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی ... شبنم رومانی کی ایک خوبصورت نظم

فردِ جرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی
بکھر گئے کثرتوں کے نشتر
چپک گئے رنگ انگلیوں سے
اور اُن کے پوروں سے رسنے والے لہو نے تاریخِ درد لکھّی
نقاب پوشوں کے ننگِ انسانیت جرائم کی فرد لکھّی
گرا جو وہ ہاتھ سرد ہو کر
تو اک جھناکے سے تار ٹوٹے ربابِ جاں کے
کھُلے دریچے سب آسماں کے
اور ان دریچوں سے محوِ حیرت فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ روحِ قابیل اپنی وحشت پہ ہنس رہی ہے
زمیں ندامت سے دھنس رہی ہے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ مردہ جسموں میں روحِ تازہ سمونے والے کو 
لوگ مصلوب کر رہے ہیں
گناہِ محسن کُشی سے خود کو
خدا کا معتوب کر رہے ہیں
انھوں نے دیکھا
کہ زندگی کے شجر کو بد بخت لوگ آرے سے کاٹتے ہیں
خود اپنی دیوارِ مہرباں کو سیہ زبانوں سے چاٹتے ہیں
فرشتگانِ خدا نے گھبرا کے یہ بھی دیکھا
کہ دشتِ کرب و بلا میں
شمرِ سیاہ طینت
حسیں اُجالوں کو ڈس رہا ہے
حُسین کے پاک خوں کا پیاسا
عذابِ محسوس بن کے اپنی ہی عاقبت پر برس رہا ہے
فلک کے حیرت زدہ دریچوں سے سر نکالے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ وہ جو ہر وہمٗ ہر گماں کو مٹا کے اُٹّھا
جو نسخۂ کیمیا کوٗ 
قرآں کوٗ
اپنے دل سے لگا کے اُٹّھا
اُٹھا اور اُس نے برادرانِ وطن کو اپنا سلام بھیجا
مگر جواباً
کیا گیا اُس کا شق کلیجہ
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
۔برادرانِ وطن کے پیراہنوں میں
خوشبو ہے اُس بدن کی
فضا میں اُس کے یہ آخری لفظ تیرتے ہیں
یہی اک آواز گونجتی ہے
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
یہی صدا ہے مرے سخن کی
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
شبنمؔ رومانی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں