اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

ہفتہ، 13 اپریل، 2013

عقل و دانش 2

عقل و دانش
٭٭٭ مُلا دو پیازہ کے رنگ ٭٭٭
شہنشاہ اکبر کے دور میں ایک ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ کا مشہور تاریخی مناظرہ منسوب کیا جاتا ھے ۔جس میں شرکا کو زبان کی بجائے صرف اشاروں سے کام لینا تھا رویت کے مطابق جب ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ آمنے سامنے بیٹھ گئے تو ایرانی عالم نے اپنی انگشت شہادت بلند کی ،ملا نے جواب میں اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ایرانی کے چہرے کے سامنے لہرائی ایرانی نے اثبات میں سر ہلایا ۔اُس کے بعد اُس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر ملا کے سامنے کیا جواب میں ملا نے داہنا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند کیا اور ایرانی کے سامنے مکّے کی طرح بلند کیا ایرانی نے ستائش کے انداز میں سر ہلایا پھر اُس نے اپنے آدمی کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اپنی جیب سے انڈا نکال کر ملا کے سامنے رکھ دیا ۔ملا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اپنے آدمی کے کان میں سرگوشی کی وہ ذرا سی دیر میں ایک پیاز لے آیا جسے ملا نے ایرانی کے رکھے ہوئے انڈے کے ساتھ رکھ دیا ایرانی نے بے ساختہ کھڑے ہو کر ملا کو گلے لگا لیا اور واضح الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ملا کی علمی قابلیت اور حاضر دماغی کی زبردست تعریف کی بادشاہ نے حسب اعلان اپنے گلے سے بیش قیمت موتیوں کی مالا اتار کر ملا کے گلے میں ڈال دی اور خلعت و زر نقد بھی عطا کیا ملا فتحیاب اور کامران دربار سے رخصت ہو گیا
بعد میں شہنشاہ نے ایرانی عالم سے سوال و جواب کی تشریح چاہی تو اُس نے کہا ' جہاں پناہ آپ کا عالم بے حد ذہین ، غضب کا حاضر دماغ اور علم و فن کا استاد ہے ۔ میں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ دیا کہ اللہ ایک ہے ملا نے جواب میں دو انگلیاں دکھا کر واضح کیا کہ مسلمانوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جواب درست تھا ۔پھر میں نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ قادر مطلق کی کائنات ہتھیلی کی طرح وسیع اور پھیلی ہوئی ہے ۔جواب ملا کہ اس کے باوجود وہ اللہ کریم کے مکمل قبضہ قدرت میں ہیں اس طرح جیسے مٹھی میں بند کوئی چیز۔بڑی معقول تشریح تھی چنانچہ مجھے تسلیم کرنا پڑی جہاں پناہ تیسرا مسئلہ میں نے انڈا دکھا کر پیش کیا کہ زمین شکل و صورت کے اعتبار سے انڈے کی طرح گول ہے ۔ملا نے پیاز دکھا کر تصحیح فرمائی کہ سات آسمان اور زمین پیاز کی طرح تہ بہ تہ لپٹے ہوئے ہیں تینوں جوابات مُسکت اور از حد عالمانہ تھے چنانچہ مجھے ملا کی علمیت تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں " ۔

اگلے روز بادشاہ نے ملا دو پیازہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا ' عالم پناہ وہ عالم کہاں کا تھا ، ایک جاہل اور گھامڑ تھا چناچہ معیار کم کرکے اُس کی سطح پر آکر جواب دینا پڑا ، وہ کیسے ' بادشاہ نے تعجب سے دریافت کیا حضور اُس نے بیٹھتے ہی اپنی انگلی میری آنکھ کی طرف بڑھائی اور دھمکی دی کہ میں تیری آنکھ پھوڑ دونگا '
پھر ؟
جہاں پناہ میں نے جواب میں اشارہ دیا کہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دونگا اِس پر وہ اور زیادہ بد تمیزی پر اُتر آیا اور اشارہ دیا کہ تھپڑ ماروں گا ۔
اچھا ؟ بادشاہ نے سمجھتے ہوئے کہا ' جی عالم پناہ ، میں نے جواب دیا کہ ایسا گھونسہ ماروں گا کہ بتیسی باہر نکل آئے گی پھر جہاں پناہ ، وہ مجھے انڈا دکھانے لگا کہ میں یہ کھاتا ہوں اتنی طاقت ہے کہ میں تمہارا بھرکس نکال دوں گا ۔ واقعی ، ؟ جی جہاں پناہ ، لیکن بندے نے جواب میں پیاز دکھائی کہ یہ انڈے میں ملا کر کھاتا ہوں جس سے طاقت دس گنا ہو جاتی ہے اس لیے جان نکال دوں گا بس عالی جاہ ، پھر حضور کے اقبال کی بدولت وہ بھاگ نکلا ۔ 

جمعہ، 12 اپریل، 2013

حفیظ جالندھری Hafeez Jalandhari

حفیظ جالندھری



آرزوئے وصل جاناں میں سحر ہونے لگی 
زندگی مانند شمع مختصر ہونے لگی 
راز الفت کھل نہ جائے بات رہ جائے مری 
بزم جاناں میں الہیٰ چشم تر ہونے لگی 
اب شکیب دل کہاں حسرت ہی حسرت رہ گی 
زندگی اک خواب کی صورت بسر ہونے لگی 
یہ طلسم حسن ہے یا کہ مآل عشق ہے 
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی 
سن رہا ہوں آرہے ہیں وہ سر بالیں آج 
میری آہ نارسا با اثرہونے لگی 
ان سے وابستہ امیدیں جو بھی تھی وہ مٹ گئیں 
اب طبیعت آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی 
وہ تبسم تھا کہ برق حسن کا اعجاز تھا 
کائنات جان و دل زیر و زبر ہونے لگی 
دل کی ڈھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے 
غالباً میری طرف ان کی نظر ہونے گی 
جب چلا مشتاق اپنا کارواں سوئے عدم 
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی

حفیظ جالندھری

ایك خوبصورت كلام

ایك خوبصورت كلام



سیاہ زُلف: گھٹا ، جال ، جادُو ، جنگ ، جلال
فُسُوں ، شباب ، شکارَن ، شراب ، رات گھنی

جبیں: چراغ ، مقدر ، کشادہ ، دُھوپ ، سَحَر
غُرُور ، قہر ، تعجب ، کمال ، نُور بھری

ظریف اَبرُو: غضب ، غمزہ ، غصہ ، غور ، غزل
گھمنڈ ، قوس ، قضا ، عشق ، طنز ، نیم سخی

پَلک: فسانہ ، شرارت ، حجاب ، تیر ، دُعا
تمنا ، نیند ، اِشارہ ، خمار ، سخت تھکی

نظر: غزال ، محبت ، نقاب ، جھیل ، اَجل
سُرُور ، عشق ، تقدس ، فریبِ اَمر و نہی

نفیس ناک: نزاکت ، صراط ، عدل ، بہار
جمیل ، سُتواں ، معطر ، لطیف ، خوشبو رَچی

گلابی گال: شَفَق ، سیب ، سرخی ، غازہ ، کنول 
طلسم ، چاہ ، بھنور ، ناز ، شرم ، نرم گِری

دو لب: عقیق ، گُہر ، پنکھڑی ، شرابِ کُہن
لذیذ ، نرم ، ملائم ، شریر ، بھیگی کلی

نشیلی ٹھوڑی: تبسم ، ترازُو ، چاہِ ذَقن
خمیدہ ، خنداں ، خجستہ ، خمار ، پتلی گلی

گلا: صراحی ، نوا ، گیت ، سوز ، آہ ، اَثر
ترنگ ، چیخ ، ترنم ، ترانہ ، سُر کی لڑی

ہتھیلی: ریشمی ، نازُک ، مَلائی ، نرم ، لطیف
حسین ، مرمریں ، صندل ، سفید ، دُودھ دُھلی

کمر: خیال ، مٹکتی کلی ، لچکتا شباب
کمان ، ٹوٹتی اَنگڑائی ، حشر ، جان کنی

پری کے پاؤں: گلابی ، گداز ، رَقص پرست
تڑپتی مچھلیاں ، محرابِ لب ، تھرکتی کلی

ابن انشاء Ibne Insha

 ابن انشاء


کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا :

کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا
کچھ نے کہا يہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تيرا


ہم بھي وہيں موجود تھے ہم سے بھي سب پوچھا کيے
ہم ہنس دئيے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تيرا

اس شہر ميں کس سے مليں، ہم سے چھوٹيں محفليں
ہر شخص تيرا نام لے، ہر شخص ديوانہ تيرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کي بارش تيري، اکرام کا دريا تيرا

ہم پر يہ سختي کي نظر ہم ہيں فقير رہگزر
رستہ کبھي روکا تيرا دامن کبھي تھاما تيرا

ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا

بے درد سنني ہوتو چل کہتا ہے کيا اچھي غزل
عاشق تيرا، رسوا تيرا، شاعر تيرا، انشا تيرا


حبیب جالب Habib Jalab



  


حبیب جالب


اردو شاعر۔ دسوہہ ضلع ہوشیار پور ’’بھارتی پنجاب‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ 15 سال کی عمر سے مشق سخن شروع کی ۔ ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہتے تھے۔ آزادی کے بعد کراچی آگئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بیایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔ ایوب خان اور یحیی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھلیں۔ نظموں کے پانچ مجموعے ۔ برگ آوارہ ، سرمقتل ، عہد ستم ، ذکر بہتے خون کا ، گوشے میں قفس کے ۔ شائع ہو چکے ہیں
میں نہیں مانتا : حبیب جالب

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں : حبیب جالب

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سُنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لئے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

وہ جو ابھی اس راہگزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں


  

جمعرات، 11 اپریل، 2013

مولانا حسرت موہانی


 مولانا حسرت موہانی





توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

میرے عذر ِ جرم پر مطلق نہ کیجیے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے

خاطر ِ محروم کو کو کر دیجیے محو ِ الم!
درپے ایذائے جانِ مبتلا ہو جائیے

راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فورا" جدا ہو جائیے

گر نگاہِ شوق کو محو ِ تماشا دیکھئیے
قہر کی نظروں سے مصروف سزا ہو جائیے

میری تحریر ِ ندامت کا نہ دیجیے کچھ جواب
دیکھ لیجیے اور تغافل آشنا ہو جائیے

مجھ سے تنہائی میں گر ملیے تو دیجیے گالیاں!
اور بزم غیر میں جانِ حیا ہو جائیے

ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اسے سے بھی بڑھ کر پر خفا ہو جائیے

جی میں آتا ہے کہ اس شوخ تغافل کیش سے
اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے

کاوش ِ دردِ جگر کی لذّتوں کو بھول کر
مائل ِ آرام و مشتاق ِ شفا ہو جائیے

ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دل مایوس میں
یعنی آکر بے نیاز ِ مدّعا ہو جائیے

بھول کر بھی اس ستم پرور کی پھر آئے نہ یاد
اس قدر بیگانہء عہدِ وفا ہو جائیے

ہائے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے

چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرز ِ تغافل کے فدا ہو جائیے

کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسٓرت دل میں ہے
چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضا ہو جائیے

شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا حسرت موہانی

بدھ، 10 اپریل، 2013

امجد اسلام امجد Amjad Isalam Amjad



امجد اسلام امجد


جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں
تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں

کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں

نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں ملانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اتر جائیں

گُلِ امید کی صورت ترے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں

دیارِ دشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی کہ وہ رستے کدھر جائیں

تو کیا اے قاسمِ اشیاء یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں

جو بخشش میں ملے امجد تو اس خوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں
*****



اُلجھن : امجد اسلام امجد


وہ ایک سوچا ہوا ناز سا تکلم میں
نظر میں ایک جھجک سی کوئی بنائی ہوئی

لبوں پہ ایک تبسم ذرا لجایا سا
جبیں پہ بزمِ مروت سجی سجائی ہوئی
ڈھکا ڈھکا سا تکبر وہ بات سننے میں
تھی جس میں حسن کی نازش کہیں چھپائی ہوئی
بدن میں خوف کی لرزش بھی، اور دعوت بھی
گریز کرتی ہوئی اور قریب آئی ہوئی
کچھ اس کو دیکھ کے کھلتا نہ تھا کہ کیا ہے

فریب دیتی ہوئی یا فریب کھائی ہوئی

Mustafa zaidi



کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا : مصطفیٰ زیدی


کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا

قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا

اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طو قِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا

اِک رشتۂ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا

صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا

تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا


پیر، 1 اپریل، 2013

Ahmad Nadeem Qasmi

Ahmad Nadeem Qasmi    احمد ندیم قاسمی

                                                         پڑھنے كے لیے تصویر كلك كیجیے

ہفتہ، 16 مارچ، 2013

Ameer meenai امیر مینائی





ایک دل، ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
سب تڑپنے تلملانے کا مزا جاتا رہا

سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی
وہ اُمنگیں مِٹ گئیں، وہ ولوَلا جاتا رہا

درد باقی، غم سلامت ہے، مگر اب دل کہاں
ہائے وہ غمِ دوست، وہ درد آشنا جاتا رہا

آنے والا، جانے والا، بیکسی میں کون تھا
ہاں مگر اک دم، غریب آتا رہا جاتا رہا

آنکھ کیا ہے، موہنی ہے، سحر ہے، اعجاز ہے
اک نگاہِ لطف میں سارا گِلا جاتا رہا

جب تلک تم تھے کشیدہ، دل تھا شکووں سے بھرا
تم گَلے سے مِل گئے، سارا گلا جاتا رہا

کھو گیا دل کھو گیا، رہتا تو کیا ہوتا، امیر
جانے دو اک بے وفا جاتا رہا جاتا رہا
(امیر مینائی)