اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعرات، 6 اگست، 2015

فراز احمد فراز کی منتخب غزلیں۔ FARAZ AHMAD FARAZ / MNTkB GHAZLAIN


يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
وہ بت ہے يا خدا، ديکھا نہ جائے

يہ کن نظروں سے تو نے آج ديکھا
کہ تيرا ديکھنا، ديکھا نہ جائے

ہميشہ کيلئے مجھ سے بچھڑ جا
يہ منظر بارہا ديکھا نہ جائے

غلط ہے سنا پر آزما کر
تجھے اے بے وفا ديکھا نہ جائے

يہ محرومي نہيں پاس وفا ہے
کوئي تيرے سوا ديکھا نہ جائے

يہي تو آشنا بنتے ہيں آخر
کوئي نا آشنا ديکھا نہ جائے

فراز اپنے سوا ہے کون تيرا
تجھے تجھ سے جدا ديکھا نہ جائے

HAFIZ JALANDHRI QOOMI TARANA / حفیظ جالندھری قومی ترانہ



پاک سرزمین شاد
کشور حسین شاد باد
تو نشان عزم عالیشان
! ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد
:پاک سرزمین کا نظام
قوت اخوت عوام
قوم ، ملک ، سلطنت
! پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزل مراد
:پرچم ستارہ و ہلال
رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی شان حال
! جان استقبال
سایۂ خدائے ذوالجلال

پیر، 3 اگست، 2015

ادبی شخصیات کے ادبی لطیفے ۔


http://urdu-poet.blogspot.no/

میر تقی میر کے مشہور عالم اشعار ۔ اردو ادب کے دیوانوں کے لیے


میر تقی میر کے مشہور عالم اشعار
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا 
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا 
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا 

قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں
کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا

فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے


کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان، جب کی بات

اس عہد میں‌ الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوارِ وعدہء دیدار مرچلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا

چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا

شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

اشک آنکھوں میں کب نہیں‌ آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا 
شکر خدا کہ حقِ محبت ادا ہوا

کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی‌ میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا

جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اُس شوخ نے بھی کام کیا

کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب

کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤگے، سنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کر

جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر

میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کرجاؤں گا سفر میں دنیا سے تب تلک

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں

اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں

کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں

بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میر
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

عام ہے یار کی تجلی میر
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں

موئے سہتے سہتے جفاکاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

اتوار، 2 اگست، 2015

جواب شکوہ حضرت علامہ محمد اقبال۔ JAWAB SHIKWA BY ALLAMA IQBAL

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا

آسماں چیرگیا نالہء فریاد مرا

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !

بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !

چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !

تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟

آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !

شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟

عالمِ کیف ہے دانائے رموزِکم ہے

ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا

اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

آسماں گیر ہوا نعرہء مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے

ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں

اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے

حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا !

نازشِ موسمِ گُل ، لالہء صحرائی تھا !

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !
کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

عدل ہے فاطرِ ھستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوہء طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد (ص) کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذان روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂِ ہستی میں عملِ جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تخت فغور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

گلہ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی

گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے بردمندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخل شمع استی و در شعلہ ریشۂ تو
عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

ہے جو ہنگامۂ بپا یورش بلغاری کا

غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا

امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا

رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂِ طوفاں ہو جا!

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے

بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے

چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے

اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعت شان رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے

مردم چشم زمین یعنی وہ کالی دنیا

وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا

گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا

عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح

غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری

مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

ہفتہ، 1 اگست، 2015

ابھی تو میں جوان ہوں ۔ حفیظ جالندری۔ HAFIZ JALANDRI

ابھی تو میں جوان ہوں

ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں
عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر
درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں
نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم
حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا
پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں
یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں
نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں