اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

جمعرات، 6 اگست، 2015

نامور شعرا کے مشہور زمانہ ایک سو اشعار / URDU ADAB KE 100 MASHOOR ASHAAR

نامور شعرا کے مشہور زمانہ ایک سو اشعار جنہیں بہت پسند کیا گیا گیا اور سراہا گیا۔ اردو ادب میں یوں تو کئی نام ہیں لیکن شہرت اور عزت بہت کم شعرا کے ھصے میں آئی۔ یہاں ان مشہور شعرا کے ایک سو اشعار پیش کیے جاتے ہیں جنہیں نہ صرف عالمی شہرت ملی بلکہ آج بھی یہ اشعار موقع کی مناسبت سے پڑھے جاتے ہیں ۔ علامہ اقبال کی یہ شعر تو ہر ایک کویاد ہوگا
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبالؒ

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں 
مرزا غالب

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد 
مولانا محمد علی جوہر

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرتقی میر

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ 
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ 
حضرت علامہ اقبالؒ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو 
کلیم عاجز

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح

رندِخراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق

دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
علامہ اقبالؒ

کعبے کس منہ سے جا وگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی

چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی

پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک ہ بے اثر
اقبالؒ

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبالؒ
مداعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے 
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
فصل بہار آئ، پیو صوفیو شراب 
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے 
آتش

آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈھتا تیری محفل میں رہ گیا 
آتش

مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے 
مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے 
آتش

امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی 'ہاں' بھی اب 'نہیں' معلوم ہوتی ہے
چراغ حسن حسرت

داور حشر میرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ 
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں 
محمد دین تاثیر

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی 
یاروں نے کتنی دور بسائ ہیں بستیاں 
فراق گو رکھپوری

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئ 
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئ 
عزیز الحسن مجذوب

وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا 
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی 
مہاراج بہادر برق

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا 
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے 
یگانہ چنگیزی

دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا 
وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا 
عزیز لکھنوی

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن 
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائ کا 
عزیز لکھنوی

دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ
نظام رام پوری

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اکبر الہ آبادیؒ

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں 
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا 
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الہ آبادیؒ

آ عندلیب مل کر کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے 
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا 
اقبالؒ

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے 
بندہ پرور جائیے، اچھا ، خفا ہو جائیے 
حسرت موہانی

تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں 
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا 
مضطر خیر آبادی

دیکھ آءو مریض فرقت کو 
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے 
حسن بریلوی

خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں 
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی

حضرتِ ڈارون حقیقت سے نہایت دور تھے
ہم نہ مانیں گے کہ آباء آپ کے لنگور تھے
اکبر الہ آبادی

دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار 
جب تک شراب آئے کئ دور ہو گئے 
شاد عظیم آبادی

ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو 
راست گوئ میں ہے رسوائ بہت 
حالی

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں 
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں 
داغ دہلوی

دی موء ذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات 
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا 
داغ دہلوی

گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد 
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں 
امیر مینائی

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ 
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے 
شیفتہ

زرا سی بات تھی اندیشہِ عجم نے جسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے
علامہ اقبالؒ

ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ 
پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لائیے 
شیفتہ

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی 
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے 
شیفتہ

لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار 
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو 
میر انیس

شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے 
زباں تھک گئ مرحبا کہتے کہتے 
مومن خان مومن

الجھا ہے پاءوں یار کا زلف دراز میں 
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا 
مومن خان مومن

اذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا 
کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا 
محمد رضا برق

کوچہ ء عشق کی راہیں کوئ ہم سے پوچھے 
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے 
وزیر علی صبا

دام و در اپنے پاس کہاں 
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں 
غالب

گو واں نہیں ، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں 
کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی 
غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد 
پر طبیعت ادھر نہیں آتی 
غالب

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے 
ایسا بھی کوئ ہے کہ سب اچھا کہیں جسے 
غالب

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل 
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 
غالب

اسی لئے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں 
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کاررواں ہو کر 
خواجہ وزیر

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں 
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا 
ذوق

ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائ سن کی سی 
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی 
اکبر الہ آبادی

فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں 
اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے 
سودا

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں 
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری 
اقبال

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 
(علامہ اقبال)

یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے
(شاد عظیم آبادی)

حیات لے کے چلو، کائینات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
(مخدوم محی الدین)

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
(میرتقی میر)

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے 
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
(اقبال)
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
(مرزاغالب)

دائم آباد رہے گی دنیا 
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہو گا
(ناصرکاظمی)

نیرنگئ سیاست دوراں تو دیکھئے 
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے 
( محسن بھوپالی )

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر 
پھر ملیں گے اگر خدا لایا 
( میر تقی میر)

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں 
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے 
( میر تقی میر)

بہت کچھ ہے کرو میر بس 
کہ اللہ بس اور باقی ہوس 
( میر تقی میر)

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہی

راہ میں ان سے ملاقات ہوئی 
جس سے ڈرتے تھے، وہی بات ہوئی
مصطفی ندیم

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
میر تقی میر

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِِعشق احتیار کیا
میر تقی میر

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے 
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبالؒ

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ساغر صدیقی

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ

فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں 
اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے 
سودا

دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن 
رات کٹتی نظر نہیں آتی 
سید محمد اثر

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب 
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا 
میر تقی میر

میرے سنگ مزار پر فرہاد 
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد 
میر تقی میر

ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ 
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا 
قائم چاند پوری

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی

ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا 
یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا 
نظیر اکبر آبادی

پڑے بھنکتے ہیں لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے 
جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں خدا ہی جانے 
نظیر اکبر آبادی

دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی

کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے
اکبر الہ آبادی

نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی
اکبر الہ آبادی

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
امیر مینائی

اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا
اُلفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے
ماہر القادری

کہہ تو دیا، اُلفت میں ہم جان کے دھوکا کھائیں گے
حضرتِ ناصح!خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟
ماہر القادری

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہ ء دل فگار بن کر
مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہ ء نو بہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر
ساغر صدیقی

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
ساغر صدیقی

محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم
کچھ گفتگو تو کھل کے کرینگے خدا کے ساتھ
عبدالحمید عدم

عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
حفیظ میرٹھی

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی 
گستاخ رام پوری

چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا مُنہ
اے شبِ ہجر تیرا کالا مُنہ
بات پوری بھی مُنہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا مُنہ 
مومن خان مومن

جوش ملیح آبادی کی منتخب شاعری/ JOSH MALEH ABADI


زندگی خواب پریشاں ہے کوئی کیا جانے 
موت کی لرزشِ مژگاں ہے کوئی کیا جانے 

رامش و رنگ کے ایوان میں لیلائے حیات 
صرف اِک رات کی مہماں ہے کوئی کیا جانے 

گلشن زیست کے ہر پُھول کی رنگینی میں 
دجلۂ خُونِ رگِ جاں ہے کوئی کیا جانے

رنگ و آہنگ سے بجتی ہُوئی یادوں کی برات 
رہ روِ جادہِ نسیاں ہے کوئی کیا جانے 
جوش ملیح آبادی
***
تبسم ہے وہ ہونٹوں پر جو دل کا کام کر جائے 
انہيں اس کي نہيں پروا، کوئي مرتا ہے، مر جائے
دعا ہے ميري اے دل تجھ سے دنيا کوچ کر جائے 
اور ايسي کچھ بنے تجھ پر کہ ارمانوں سے ڈر جائے
جو موقع مل گيا تو خضر سے يہ بات پوچھيں گے 
جسے ہو جستجو اپني، وہ بے چارہ کدھر جائے؟
سحر کو سينہ ِ عالم ميں پر توَ ڈالنے والے 
تصدق اپنے جلوے کا، مرا باطن سنور جائے
حيات ِ دائمي کي لہر ہے اس زندگاني ميں 
اگر مرنے سے پہلے بن پڑے تو جوش مر جائے
جوش ملیح آبادی
***
تجھے اس سے زیادہ کوئی سمجھا نہیں سکتا
خدا وہ ہے جو حد عقل میں آ ہی نہیں سکتا
مرا دل عزت فانی پہ اترا ہی نہیں سکتا
ترے دھوکے میں اے دنیا کبھی آ ہی نہیں سکتا
رموز معرفت کو معنی بے لفظ کہتے ہیں
یہ وہ باتیں ہیں جن کو ناطقہ پا ہی نہیں سکتا
جو ہر جنبش کے پیچھے اک سکوں محسوس کرتا ہے
کبھی وہ اضطراب دل سے گھبرا ہی نہیں سکتا
جوش ملیح آبادی
***

فراز احمد فراز کی منتخب غزلیں۔ FARAZ AHMAD FARAZ / MNTkB GHAZLAIN


يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
وہ بت ہے يا خدا، ديکھا نہ جائے

يہ کن نظروں سے تو نے آج ديکھا
کہ تيرا ديکھنا، ديکھا نہ جائے

ہميشہ کيلئے مجھ سے بچھڑ جا
يہ منظر بارہا ديکھا نہ جائے

غلط ہے سنا پر آزما کر
تجھے اے بے وفا ديکھا نہ جائے

يہ محرومي نہيں پاس وفا ہے
کوئي تيرے سوا ديکھا نہ جائے

يہي تو آشنا بنتے ہيں آخر
کوئي نا آشنا ديکھا نہ جائے

فراز اپنے سوا ہے کون تيرا
تجھے تجھ سے جدا ديکھا نہ جائے

HAFIZ JALANDHRI QOOMI TARANA / حفیظ جالندھری قومی ترانہ



پاک سرزمین شاد
کشور حسین شاد باد
تو نشان عزم عالیشان
! ارض پاکستان
مرکز یقین شاد باد
:پاک سرزمین کا نظام
قوت اخوت عوام
قوم ، ملک ، سلطنت
! پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزل مراد
:پرچم ستارہ و ہلال
رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی شان حال
! جان استقبال
سایۂ خدائے ذوالجلال

پیر، 3 اگست، 2015

ادبی شخصیات کے ادبی لطیفے ۔


http://urdu-poet.blogspot.no/

میر تقی میر کے مشہور عالم اشعار ۔ اردو ادب کے دیوانوں کے لیے


میر تقی میر کے مشہور عالم اشعار
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا 
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا 
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا 

قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا

میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں
کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟

یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا

فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے


کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان، جب کی بات

اس عہد میں‌ الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوارِ وعدہء دیدار مرچلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا

چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا

شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

اشک آنکھوں میں کب نہیں‌ آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا 
شکر خدا کہ حقِ محبت ادا ہوا

کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی‌ میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا

جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اُس شوخ نے بھی کام کیا

کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب

کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد

غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤگے، سنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کر

جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر

میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کرجاؤں گا سفر میں دنیا سے تب تلک

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں

اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں

کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں

بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میر
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

عام ہے یار کی تجلی میر
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں

موئے سہتے سہتے جفاکاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

اتوار، 2 اگست، 2015

جواب شکوہ حضرت علامہ محمد اقبال۔ JAWAB SHIKWA BY ALLAMA IQBAL

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا

آسماں چیرگیا نالہء فریاد مرا

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !

بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !

چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !

تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟

آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !

شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟

عالمِ کیف ہے دانائے رموزِکم ہے

ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا

اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

آسماں گیر ہوا نعرہء مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے

ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں

اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے

حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا !

نازشِ موسمِ گُل ، لالہء صحرائی تھا !

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !
کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

عدل ہے فاطرِ ھستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوہء طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد (ص) کا تمہیں پاس نہیں

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذان روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂِ ہستی میں عملِ جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تخت فغور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

گلہ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی

گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے بردمندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخل شمع استی و در شعلہ ریشۂ تو
عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

ہے جو ہنگامۂ بپا یورش بلغاری کا

غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا

امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا

رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂِ طوفاں ہو جا!

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے

بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے

چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے

اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعت شان رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے

مردم چشم زمین یعنی وہ کالی دنیا

وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا

گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا

عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح

غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری

مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں