اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 13 ستمبر، 2015

کلام شاعر ۔ محسن نقوی ۔ غزلیں ۔ نظمیں

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھکوجاگتےرہنےکا شوق کب سےہوا
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ
کبھی یہ جشن بھی سرِ راہ گزار کرنا ہے
وہ مسکرا کے نئے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ہے
چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے
خدا خبر یہ کوئ ضد ہے کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے
محسن نقوی
کبھی جو عہدِ وفا میری جاں تیرے میرے درمیان ٹوٹے
میں چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے زمیں پہ یہ آسمان ٹوٹے
تیری جدائی میں‌ حوصلوں کی شکست دل پر عذاب ٹھہری
کہ جیسے منہ زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹوٹے
اسے یقیں تھا کہ اس کو مرنا ہے پھر بھی خواہش تھی اس کے دل میں
کہ تیر چلنے سے پیشتر دستِ دشمناں میں کمان ٹوٹے
وہ سنگ ہے تو گرے بھی دل پر وہ آئینہ ہے تو چبھ ہی جائے
کہیں تو میرا یقین بکھرے کہیں‌ تو میرا گمان ٹوٹے
اجاڑ بن کی اداس رت میں غزل تو محسن نے چھیڑ دی ہے
کسے خبر ہے کہ کس کے معصوم دل پہ اب کہ یہ تان ٹوٹے
محسن نقوی
مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا
وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا
روٹھا ہوا تھا ہنس تو پڑا مجھ کو دکھ کر
مجھ کو تو اس قدر بھی دلاسا بہت لگا
صحرا میں جی رہا تھا جو دریا دلی کے ساتھ
دیکھا جو غور سے تو وہ پیاسا بہت لگا
وہ جس کے دم قدم سے تھیں بستی کی رونقیں
بستی اجڑ گئی تو اکیلا بہت لگا
لپٹا ہوا کہر میں جیسے خزاں کا چاند
میلے لباس میں بھی وہ پیارا بہت لگا
ریشم پہن کے بھی میری قیمت نہ بڑھ سکی
کھدر بھی اس کے جسم پہ مہنگا بہت لگا
محسن جب آئینے پہ میری سانس جم گئی
مجھ کو خود اپنا عکس بھی دھندلا بہت لگا
محسن نقوی
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے اب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی تپش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
آگ کی ضد میں نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میںشرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی ملتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارہ نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسن
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
محسن نقوی
چلو چھوڑو!
محبت جھوٹ ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بےکار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا
محسن نقوی
وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی 
پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی
سورج اس کو دیکھ کر پیلا پرتا تھا 
وہ سرما کی دھوپ میں دھل کر نکلی تھی
اسکو اپنے سائے سے ڈر لگتا تھا 
سوچ کے صحرا میں وہ تنہا ہرنی تھی
آتے جاتے موسم اس کو ڈستے تھے 
ہنستے ہنستے پلکوں سے رو پڑتی تھی
آدھی رات گنوا دیتی تھی چپ رہ کر 
آدھی رات کو چاند سے باتیں کرتی تھی
دور سے اجڑے مندر جیسا گھر اس کا 
وہ اپنے گھر میں اکلوتی دیوی تھی
موم سے نازک جسم سھر کو دکھتا تھا 
دیئے جلا کر شب بھر آپ پگھلتی تھی
تیز ہوا کو روک کر اپنے آنچل پر 
سوکھے پھول اکٹھے کرتی پھرتی تھی
سب ظاہر کر دیتی تھی بھید اپنا 
سب سے ایک تصویر چھپائے رکھتی تھی
کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا 
یا پھر پہلی بار وہ دل کھول کر روئی تھی
محسن کیا جانے دھوپ سے بے پروا
وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھی ؟
محسن نقوی
اِتنی مُدّت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم رہتے ہو؟
اِتنے خائف کیوں رہتے ہو؟
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو
تیز ہَوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟
کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اِتنے اچھّے کیوں لگتے ہو؟
پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
ّپتھر بن کر کیا تکتے ہو
جاؤ جیت کا جشن مناؤ
میں جھوٹا ہوں145 تم سچّے ہو
اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں اُلجھے ہو؟
کہنے کو رہتے ہو دل میں
پھر بھی کتنے دُور کھڑے ہو
رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصّے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟
محسن تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو، پھر بھی اچھّے ہو
محسن نقوی
کوئی آواز!
جب تنہا مسافت میں
میرے ہمراہ چلتی ھے
کوئی پرچھائیں
جب میری بجھی آنکھوں میں
چبھتے اشک چنتی ھے
تو لمحہ بھر کو
رک کر سوچتا ھوں میں
کہ اس تنہا مسافت میں
کسی صحرا میں سائے بانٹتے
اشجار کی خوشبو ھے
یا تم ھو۔۔۔ ؟؟
محسن نقوی
سن لیا ہم نے فیصلہ تیرا
اور سن کر' اداس ہو بیٹھے
ذہن چپ چاپ آنکھ خالی ہے
جیسے ہم کائنات کھو بیٹھے
دھندلے دھندلے سے منظروں میں مگر
چھیڑتی ہیں تجلیاں تیری
بھولی بسری ہوئی رتوں سے ادھر
یاد آئیں تسلیاں تیری
دل یہ کہتا ہے ضبط لازم ہے
ہجر کے دن کی دھوپ ڈھلنے تک
اعترافِ شکست کیا کرنا
فیصلے کی گھڑی بدلنے تک
دل یہ کہتا ہے حوصلہ رکھنا
سنگ رستے سے ہٹ بھی سکتے ہیں
اس سے پہلے کہ آنکھ بجھ جائے
جانے والے پلٹ بھی سکتے ہیں
اب چراغاں کریں ہم اشکوں سے
مناظر بجھے بجھے دیکھیں؟
اک طرف تو ہے' اک طرف دل ہے
دل کی مانیں کہ اب تجھے دیکھیں
خود سے بھی کشمکش سی جاری ہے
راہ میں تیرا غم بھی حائل ہے
چاک در چاک ہے قبائے حواس
بے رفو سوچ' روح گھائل ہے
تجھ کو پایا تو چاک سی لیں گے
غم بھی امرت سمجھ کے پی لیں گے
ورنہ یوں ہے کہ دامنِ دل میں
چند سانسیں ہیں' گن کے جی لیں گے
محسن نقوی
پیار کی پہلی سالگرہ
جاناں! اِک پل آنکھیں کھولو
آج کے دن تنہائی کیسی؟
دھوپ کی زردی گوشئہ زنداں میں یُوں اُتری
جیسے ایک اداس مسافر
دشت میں تھک کر بیٹھ گیا ہو
آج ہوا کے ہاتھ میں سوکھتے پتوں کا گلدستہ کیوں ہے؟
آج فضا یخ بستہ کیوں ہے ؟
طوق و سلاسِل مہر بہ لب ہیں
سناٹے کے بوجھل قدموں کی ہر آہٹ
اندیشوں کے سیلِ رواں میں بہتی جائے
پتھر دل کی سہی دھڑکن!
زیرِ زباں کچھ کہتی جائے!
" روزن " اب تک جاگ رہا ہے
جیسے تُو آنے والی ہو
جیسے تیرے نرم لبوں کی ریشم کرنیں
اپنے دامن میں تیری آواز سمیٹے
میری بند آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھیں اور پوچھیں " بوجھو!"
کس کی یاد کا لمس تمہارے گرم لبوں کو چوم رہا ہے ؟
ایک زمانہ گھوم رہا ہے
جاناں ! اِک پل آنکھیں کھولو
دیکھو آج ہمارے پیار کی پہلی سالگرہ کا
پہلا دن ہے
پہلا دن کتنا کم سِن ہے
دیکھو ہر سو گونج رہی ہے
جذبوں کی شہنائی کیسی؟
آج کے دن تنہائی کیسی؟؟
جاناں اک پل آنکھیں کھولو
طوق و سلاسِل مُہر بہ لب ہیں
کچھ تو بولو
محسن نقوی
نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے
ہمارے شہر میں لوگو! محبت روز بکتی ہے
امیرِ شہر کے ڈر کا ابھی محتاج ہے مذہب
ابھی مُلا کے فتووں میں شریعت روز بکتی ہے
ہمارے خون کو بھی وہ کسی دن بیچ ڈالیں گے
خریداروں کے جُھرمٹ میں عدالت روز بکتی ہے
نجانے لطف کیا ملتا ہے ان کو روز بکنے میں
طوائف کی طرح لوگو! قیادت روز بکتی ہے
کبھی مسجد کے منبر پر، کبھی حجرے میں چھپ چھپ کے
میرے واعظ کے لہجے میں قیامت روز بکتی ہے
بڑی لاچار ہیں محسنؔ جبینیں ان غریبوں کی
کہ مجبوری کی منڈی میں عبادت روز بکتی ہے
محسن نقوی
مذید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

کلام محسن نقوی ۔ محسن نقوی کا خوبصورت کلام

لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خداتو بھی نہیں میں بھی نہیں
توجفا کی ، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے ، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو توہو
در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
محسن نقوی
اس نے جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کہ تمھارا محسن
لوگ صدیوں کی خطاؤں‌ پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
جب آ گیا ہو یہ یقیں اب وہ نہیں آئے گا
غم اور آنسو نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اس کو پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اس کا کھونا بھی کریں کیسے گوارا محسن
محسن نقوی
میرے لیے کون سوچتا ہے
جدا جدا ہیں میرے قبیلے کے لوگ سارے
جدا جدا سب کی صورتیں ہیں
سبھی کو اپنی انا کے اندھے کنویں کی تہہ میں پڑے ہوئے
خواہشوں ک پنجر
ہوس کے ٹکڑے
حواس ریزے
ہراس کنکر تلاشنا ہیں
سبھی کو اپنے بدن کی شہ رگ میں
قطرہ قطرہ لہو کا لاوا انڈیلنا ہے
سبھی کو گزرے دنوں کے دریا کا دکھ
وراثت میں جھیلنا ہے
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کی اپنی ضرورتیں ہیں!
میری رگیں چھیلتی جراحت کو کون بخشے
شفا کی شبنم
مری اداسی کو کون بہلائے؟
کس کو فرصت ہے مجھ سے پوچھے
کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں؟
میری مشقت کی شاخِ عریاں پہ
سازشوں کے عذاب کیوں ہیں؟
میری ہتھیلی پہ خواب کیوں ہیں؟
مرے سفر میں سراب کیوں ہیں؟
میرے لیے کون سوچتا ہے؟
سبھی کے دل میں کدوتیں ہیں!
محسن نقوی
کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
ایک تو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پل بھر سوچا
دکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبب یاد آئے
پھول کھلنے کا جو موسم مرے دل میں اُترا
تیرے بخشے ہوئے کچھ زخم عجب یاد آئے
اب تو آنکھوں میں فقط دھول ہے کچھ یادوں کی
ہم اسے یاد بھی آئے ہیں تو کب یاد آئے
بھول جانے میں وہ ظالم ہے بھَلا کا ماہر
یاد آنے پہ بھی آئے تو غضب یاد آئے
یہ خنک رت یہ نئے سال کا پہلا لمحہ
دل کی خواہش ہے کہ محسن کوئی اب یاد آئے
محسن نقوی
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا
بُھلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے
کہ بہرِ مالِ غنیمت جہاد کیا کرنا
مسافتیں ہی پہن لیں تو منزلوں کے لیے
اب اعتبارِ رُخِ گردوبارکیا کرنا
نگاہ میں جو اُترتا ہے دل سے کیوں اُترے
دل و نگاہ میں پیدا تضاد کیا کرنا
میں اس لیے اُسے اب تک چھو نہ سکا محسن
وہ آہیٔنہ ہے اُسے سنگ زاد کیا کرنا
محسن نقوی
اَب کے سفر میں تشنہ لَبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا؟
صحراؤں کی پیاس بجھاتے دریاؤں کو پیاسا دیکھا
شاید وہ بھی سرد رُتوں کے چاند سی قسمت لایا ہو گا
شہر کی بھِیڑ میں اکثر جس کو ہم نے تنہا تنہا دیکھا
چارہ گروں کی قَید سے چھوُٹے، تعبیریں سب راکھ ہوئی ہیں
اب کے دل میں درد وہ اُترا، اب کے خواب ہی ایسا دیکھا
رات بہت بھٹکے ہم لے کر، آنکھوں کے خالی مشکیزے
رات فرات پہ پھر دشمن کے لشکریوں کا پہرا دیکھا
درد کا تاجر بانٹ رہا تھا گلیوں میں مجروح تبسّم
دِل کی چوٹ کوئی کیا جانے، زخم تو آنکھ میں گہرا دیکھا
جس کے لیے بدنام ہوئے ہم، آپ تو اُس سے مِل کر آئے
آپ نے اُس کو کیسا پایا، آپ نے اُس کو کیسا دیکھا؟
کیسا شخص تھا زرد رُتوں کی بھیڑ میں جب بھی سامنے آیا
اُس کو دھوپ سا کھُلتا پایا، اُس کو پھول سی کھِلتا دیکھا
اَبر کی چادر تان کے جھیل میں ساتوں رنگ رچانے اُترا
موجئہ آب کی تہہ میں جانے چاند نے کس کا چہرہ دیکھا
تیرے بعد ہمارے حال کی ہر رُت آپ گواہی دے گی
ہر موسم نے اپنی آنکھ میں ایک ہی درد کا سایا دیکھا
محسنؔ بند کواڑ کے پیچھے ڈھونڈ رہی ہے، سہمی شمعیں
جیسے عُمر کے بعد ہوَا نے میرے گھر کا رستہ دیکھا
محسن نقوی
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تُو نے یہ بھی سوچا ہے
اَدھورا چاند بھی کتنا اُداس لگتا ہے
یہ ختم وصل کا لمحہ ہے رائیگاں نہ سمجھ
کہ اِس کے بعد وہی دُوریوں کا صحرا ہے
کچھ اور دیر نہ جھڑنا اُداسیوں کے شجر
کسے خبر تیرے سائے میں کون بیٹھا ہے؟
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اُس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مُسکرا کے ملتا ہے
میں کس طرح تجھے دیکھوں نظر جھجکتی ہے
تیرا بدن ہے کہ یہ آئینوں کا دریا ہے؟
کچھ اِس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق تیرا
یہ زہر دل میں اُتر کر ہی راس آتا ہے
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہُوا سا رہتا ہُوں
کبھی کبھی تو مجھے تُو نے ٹھیک سمجھا ہے
مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گُل کو بجھڑتے دیکھا ہے
میں مُسکرا بھی پڑا ہُوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہُوئی قبر پر بھی کِھلتا ہے
اُسے گنوا کے مَیں زندہ ہُوں اِس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہَوا میں چراغ جلتا ہے
محسن نقوی
شامِ غم جب بکھر گئی ہو گی
جانے کس کس کے گھر گئی ہو گی؟
اِتنی لرزاں نہ تھی چراغ کی لَو
اپنے سائے سے ڈر گئی ہو گی
چاندنی ایک شب کی مہماں تھی
صبح ہوتے ہی مَر گئی ہو گی
دیر تک وہ خفا رہے مجھ سے
دُور تک یہ خبر گئی ہو گی
ایک دریا کے رُخ بدلتے ہی
اِک ندی پھر اُتر گئی ہو گی
جس طرف وہ سفر پہ نکلا تھا
ساری رونق اُدھر گئی ہو گی
رات سورج کو دھونڈنے کے لیے
تا بہ حدِّ سحر گئی ہو گی
میری یادوں کی دھوپ چھاؤں میں
اُس کی صورت نکھر گئی ہو گی
یا تعلّق نہ نبھ سکا اس سے
یا طبیعت ہی بھر گئی ہو گی
تیری پل بھر کی دوستی محسنؔ
اُس کو بدنام کر گئی ہو گی
محسن نقوی
ہر اک جانب اداسی ہے
ابھی سوچیں تو کیا سوچیں؟
ہر اک سو، ہو کا عالم ہے
ابھی بولیں تو کیا بولیں؟
ہر اک انسان پتھر ہے
ابھی دھڑکیں تو کیا دھڑکیں؟
فضا پر نیند طاری ہے
ابھی جاگیں تو کیا جاگیں؟
ہر اک مقتل کی شہِ رگ میں
لہو کی لہر جاری ہے
ابھی دیکھیں تو کیا دیکھیں؟
ہر اک انسان کا سایہ
ابھی مٹی پہ بھاری ہے
ابھی لکھیں تو کیا لکھیں؟
محسن نقوی
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے!
محسن نقوی
شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی
ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی
مجھے تنہائیوں کا خوف کیوں ہے
وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی
وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی
سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی
اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی
دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی
اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی
میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کبھی دیکھے تو سہی
اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی
محسن نقوی

محسن نقوی کی منتخب شاعری

چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا
اک درد کا میلہ ہے ، لگا ہے دل و جاں‌میں
اک روح کی آواز کا رستہ مجھے دینا
اک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اس کا دلاسا مجھے دینا
محسن نقوی
اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مجروح ہوئی شاخ سنبھالو
اس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھر تے رہو لیکن
ممکن ہو تو اک دن میرا چہرہ مجھے دینا
محسن نقوی
شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دِیے تُند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر!
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
محسن نقویاُجاڑ رُت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبسِ ہوَا سے یہ پوچھتا محسنؔ
مِلا ہے کیا اُسے کلیوں کو بے نمو کر کے
محسن نقوی
وفا میں اب یہ ہُنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نا کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا؟
مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ
کبھی یہ جشن سرِ راہگزار کرنا ہے
وہ مسکرا کے نٔے وسوسوں میں ڈال گیا
خیال تھا کہ اُسے شرمسار کرنا ہے
مثالِ شاخِ برہنہ خزاں کی رُت میں کبھی
خود اپنے جسم کو بے برگ وبار کرنا ہے
ترے فراق مین دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے
چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں
کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے
کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں !
قبا سمجھ کے بدن کو تار تار کرنا ہے
خدا خیر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جان کے دُشمن سے پیار کرنا ہے
محسن نقوی
راہِ وفا میں اذیتِ شناسائیاں نہ گئیں
کسی بھی رت میں ہماری اداسیاں نہ گئیں
تنی ہے ابر کی چادر بھی آسماں پہ مگر
شعاعِ مہر ، تیری بے لباسیاں نہ گئیں
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بدحواسیاں نہ گئیں
خدا خبر کہاں کونجوں کے قافلے اترے
سمندر کی طرف بھی تو پیاسیاں نہ گئیں
خزاں میں بھی تو مہکتی غزل پہن کے ملا
مزاجِ یار تیری خوش لباسیاں نہ گئیں
بسنت رت میں بھی مندر اداس تھے محسن
کہ دیوتاؤں سے ملنے کو داسیاں نہ گئیں
محسن نقوی
باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ میری اپنی انا کا تھا
گم سم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں
شائید وہ منتظر کسی آندھی ہوا کا تھا
اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیئے میں غرور انتہا کا تھا
دیکھا تو وہ حسین لگا سارے شہر میں
سوچا تو وہ ذہین بھی ظالم بلا کا تھا
لہرا رہا تھا کل جو سرِ شاخ بے لباس
دامن کا تار تھا کہ وہ پرچم صبا کا تھا
اس کو غلافِ روح میں رکھا سنبھال کر
محسن وہ زخم بھی تو کسی آشنا کا تھا
محسن نقوی
اسی کو صبح مسافت نے چُور کر ڈالا
وہ آفتاب جسے دوپہر میں ڈھلنا تھا
عجب نصیب تھا محسن کہ بعد مرگ مجھے
چراغ بن کے خود اپنی لحد پہ جلنا تھا
محسن نقوی
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ سے نغمہءِ زارِ حیات میں
جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں جو چھنک اٹھیں
تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک
جہاں چاند، ماند نہ ہو کبھی، جہاں چاندنی کی ردا بنے
میری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک
جہاں صرف حکمِ یقیں چلے، جہاں بے نشاں ہو قیاس تک
جہاں آدمیت کے ناطق و لب پہ نہ شہرِ یار کا خوف ہو
جہاں سر سرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی ہراس تک
جہاں وہم نہ ہو، نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو
جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ
جہاں جگنوؤں کو ہوا دیکھاتی ہو راستہ
جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رت کو حسد نہ ہو
جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی قد نہ ہو
جہاں خواب آنکھوں جگمگائیں تو
جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں تیرگی کا گزر نہ ہو
کوئی رات ایسی بسر نہ ہو کہ بشر کو اپنی خبر نہ ہو
جہاں داغ داغ سحر نہ ہو
جہاں کشتیاں ہوں رواں دواں تو سمندروں میں بھنور نہ ہو
جہاں برگ و بار سے اجنبی کوئی شاخ ، کوئی شجر نہ ہو
جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو بارشوں کے عذاب کا ڈر نہ ہو
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ غمِ جہاں کا اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں ، غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمِ کائنات کی تلخیاں، کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں
جہاں میرے سانس کی تازگی تیری چاہتوں کے کنول میں ہو
تیرا حسن میری غزل میں ہو
جہاں کائنات کی اک صدف، شب و روز کےکسی پل میں‌ہو
جہاں نوحہءِ غمِ زندگی، میری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو
جہاں لوحِ خاک پہ عمر بھر کسی بے گناہ کے خون کا
کوئی داغ کوئی نشاں نہ ہو
کوئی شہر ایسا کبھی کہیں
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں
جہاں بانجھ رت میں بھی گل کھلیں
جہاں چاہتوں کے ہجوم میں کبھی گیت امن کے گاؤں میں
جہاں زندگی کا رجز پڑہوں ، جہاں بے خلل گنگناؤں میں
جہاں موج موج کی اوٹ میں، تو کرن بنے، مسکراؤں میں
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
محسن نقوی
کبھی جو چھڑ گئی یادِ رفتگاں محسن
بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن
ہوا نے راکھ اُ ڑائی تو دل کو یاد آیا
کہ جل بجھیں میرے خوابوں کی بستیاں محسن
کھنڈر ہے عہدِ گزشتہ نہ چھو نہ چھیڑ اسے
کھلیں تو بند نہ ہو اس کی کھڑکیاں محسن
بجھا ہے کون ستارا کہ اپنی آنکھ کے ساتھ
ہوئے ہیں سارے مناظر دھواں دھواں محسن
نہیں کہ اس نے گنوائے ہیں ماہ و سال اپنے
تمام عمر کٹی یوں بھی رائیگاں محسن
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھیں جسے میرے کرچیاں محسن
کہیں سے اس نے بھی توڑا ہے خود سے ربطِ وفا
کہیں سے بھول گیا میں بھی داستاں محسن
محسن نقوی
فنکار ہے تو ہاتھ میں سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
اب اختتام کو ہے سخی حرفِ التماس
کچھ ہے تو اب وہ سامنے دستِ دعا کے لا
پیامِ وفا کے باندھ مگر سوچ سوچ کر
اس ابتدا میں یوں نہ سخن انتہا کے لا
آرائشِ جراحتِ یاراں کی بزم ہے
جو زخم دل میں ہیں سبھی تن پر سجا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گل
تھوڑی سی اس کے جسم کی خوشبو چرا کے لا
محسن اب اس کا نام ہے سب کی زبان پر
کس نے کہا کہ اس کو غزل میں سجا کے لا
محسن نقوی
اب اے میرے اِحساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تم میرا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو ۔۔
گرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا!
جب وقت کی مرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو
اُس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھرتے رہو ، لیکن
ممکن ہو تو اِک دن مِرا چہرہ مجھے دینا
چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تیری آئے
جاتے ہوئے اِک زخم تو ایسا مجھے دینا
شب بھر کی مسافت ہے گواہی کی طلبگار
اے صبحِ صفر ۔۔اپنا ستارہ مجھے دینا
اِک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جان میں
اِک روح کی آواز کہ "رستہ مجھے دینا"
اِک تازہ غزل اذنِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اُس کا دِلاسہ مجھے دینا
محسن نقوی

جمعہ، 11 ستمبر، 2015

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا . غزل

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے، تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی، جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو، پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا، کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
اظہر نفیس

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​ . کلام حضرت بیدم شاہ وارثی


بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​

میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے​
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​

بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ​
بیدم شاہ وارثی