اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 17 جنوری، 2016

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں ۔ ناصر کاظمی

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر

تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر

تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر

شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر

یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر

دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابر کرم صبر کر صبر کر

کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر

پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر

درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر

دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا

افتخار عارف

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا 
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا 
شِکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر 
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا 
دمشقِ مصلحت و کوفۂ نفاق کے بیچ 
فغانِ قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا 
مآلِ عزتَ ساداتِ عشق دیکھ کے ہم 
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا 
فروغِ صنعتِ قد آوری کا موسم ہے 
سبک ہوئے پہ بھی نکلا ہے قد و قامت کیا

جوش ملیح آبادی کا کلام

جوش ملیح آبادی کا کلام

الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
تری تسبیح کو حاضر ہے لشکر خانہ زادوں کا 
یہ آدم ہے بڑا باغی نرا طاغی کھرا کھوٹا 
ڈبو دے گا لہو میں دہر کو یہ خاک کا پتلا 
بشر پیغمبرِ شر ہے اِسے پیدا نہ کر مولیٰ 
یہ آلِ تیغ ہے اولادِ پیکاں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
جہاد و جذبہ و جاہ و جلال و جنگ کی دھن میں 
عصا و چتر و مہر و افسر و اورنگ کی دھن میں 
زبان و مُلک و نسل و قوم و دین و رنگ کی دھن میں 
دف و طنبورہ و طاؤس و عود و چنگ کی دھن مین 
بہائے گا لہو گیتی پر انساں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
سعادت کو گرایا جائے گا قصرِ نحوست میں 
کتب خانے جلائے جائیں گے شہرِ جہالت میں 
زبانِ صدق کاٹی جائے گی دار الخلافت میں 
سرِ اخلاص تولا جائے گا صحنِ عدالت میں 
بہ میزانِ خمِ شمشیرِ براں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
مرے گا یہ فقط اپنی ہی عشرت کے سُبیتے پر 
یہ ٹانکے گا گہر بس اپنی ہی ٹوپی کے فیتے پر 
ترس کھائے گا یہ ظالم نہ مردے پر نہ جیتے پر 
نگاہِ قہر اب ہے کس لیے اپنے چہیتے پر 
بشر ہے خسروِ اقلیمِ عدواں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
بنے گا کوئے خوباں میں نہ خالی مرکزِ لذت 
خراباتِ مغاں ہی میں نہ گونجے گی غنائیت 
یہ لے بڑھ جائے گی اتنی کہ بہرِ مستی و عشرت 
حرم میں بھی کہ ہے دارالامانِ عفت و عصمت 
جلائی جائے گی قندیلِ عصیاں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
**
کبھی طغیانِ وحشت سے کبھی جوشِ تمنا سے 
کبھی دل کے اشارے سے کبھی اوروں کے ایما سے 
کبھی آہنگِ امشب سے کبھی گلبانگِ فردا سے 
کبھی ہیجانِ مستی سے کبھی دستِ زلیخا سے 
پھٹے گا حضرتِ نائب کا داماں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
** 
بنے گا شوقِ عصیاں کوہِ آتش بار کا لاوا 
نکالا جائے گا اِس آدمی کا خلد سے باوا 
خلافت کھائے گی اک روز دشتِ کفر میں کاوا 
ہماری بات کو ٹھکرا کر اب کیوں ہے یہ پچھتاوا 
بغاوت پر اتر آئے گا انساں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے 
قُوائے این و آں کو فکر کی بھٹی میں پگھلا کر 
محیطِ بے کرانِ ثابت و سیار پر چھا کر 
زمین و آسماں کی طاقتوں کو فتح فرما کر 
حیاتِ جاوداں کا تاج پیشانی پہ جھمکا کر 
یہ کل ہو گا الوہیت کا خواہاں ہم نہ کہتے تھے 
الٰہی خلقتِ آدم کے ہیجانی ارادے میں 
کروروں ہونکتے فتنے ہیں غلطاں ہم نہ کہتے تھے

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے ۔ غزل جون ایلیا

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے 
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے 
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں 
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے 
یہ خراباتیانِ خرد باختہ 
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے 
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں 
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے 
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم 
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے

جون ایلیا

کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے ۔ غزل مصطفی زیدی

کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے 
غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے 
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے 
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے 
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و 
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے 
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ 
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے ليے آ

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے ليے آ
آ پھر سے مُجھے چھوڑ کے جانے کے ليے آ
پہلے سے مراسم نا سہی پھر بھی کبھی تو
رسمِ راہِ دنيا ہی نبھانے کے ليے آ
کس کس کو بتائيں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے ليے آ
کچھ تو ميرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو مجھ کو منانے کے ليے آ
ايک عمر سے ہوں لذتِ گِريہ سے بھی محروم
اے راحتِ جان مجھ کو رُلانے کے ليے آ
اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہيں اميديں
يہ آخری شمعيں بھی بُجھانے کے ليے آ
فراز احمد فراز

بدھ، 21 اکتوبر، 2015

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے ۔۔ مرثیہ امامِ عالی مقام ۔ کلام فیض احمد فیض

مرثیہ امامِ عالی مقام
کلام فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل
بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو
حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا ۔ کلام مولانا محمد علی جوہر

کلام مولانا محمد علی جوہر


بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا

ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا

روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا

جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے 
سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا

مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا

جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز 
اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا 

پیر، 19 اکتوبر، 2015

سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں
السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

السّلام اے داستانِ بے کسی
السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن
السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن
السّلام اے افتخارِ عارفاں

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی
السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

السّلام اے بوترابی کی دلیل
السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

السّلام اے ساجدِ بے آرزو
السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری
السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

السّلام اے مستیٔ جامِ نجف
السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں
السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت
السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی
السّلام اے معدنِ علمِ رواں

السّلام اے گوہرِ عینِ علی
دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی

سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی

سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی
امامِ برحقِ اہلِ رضا سلام علیک
شہیدِ معرکۂ کربلا سلام علیک

کلِ مرادِ ولایت حسین ابنِ علی
تتمۂ شرفِ مصطفٰی سلام علیک

ثبوت یہ ہے کہ نُورِ شہادتِ کُبرٰی
تری جبیں سے نمایاں ہوا، سلام علیک

عبث ہے اور کہیں راہِ صبر و حق کی تلاش
تری مثال ہے جب رہنما، سلام علیک

ترے طفیل مِیں، حسرت بھی ہو شہیدِ وفا
یہی دعا ہے، یہی مدّعا، سلام علیک