اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

منگل، 9 مارچ، 2021

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے - احمد فراز شاعری - احمد فراز غزل - Apni Mohabbat Ke Afsane

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے

رسوائی سے ڈرنے والو ، بات تمہیں پھیلاؤ گے

اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت

ترکِ محبت کرنے والو ، تم تنہا رہ جاؤ گے

ہجر کے ماروں کی خوش فہمی ، جاگ رہے ہیں پہروں سے

جیسے یوں شب کٹ جائے گی ، جیسے تم آ جاؤ گے

زخمِ تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے

اس کا بھلانا سہل نہیں ہے ، خود کو بھی یاد آؤ گے

چھوڑ عہدِ وفا کی باتیں ، کیوں جھوٹے اِقرار کریں

کل میں بھی شرمندہ ہوں گا ، کل تم بھی پچھتاؤ گے

رہنے دو یہ پَند و نصیحت ، ہم بھی فراز سے واقِف ہیں

جس نے خود سو زخم سہے ہوں ، اس کو کیا سمجھاؤ گے

احمد فراز




منگل، 1 مارچ، 2016

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ .... فیض احمد فیض كا خوبصورت كلام


مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

منگل، 9 فروری، 2016

فردِ جرم .. کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی ... شبنم رومانی کی ایک خوبصورت نظم

فردِ جرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی
بکھر گئے کثرتوں کے نشتر
چپک گئے رنگ انگلیوں سے
اور اُن کے پوروں سے رسنے والے لہو نے تاریخِ درد لکھّی
نقاب پوشوں کے ننگِ انسانیت جرائم کی فرد لکھّی
گرا جو وہ ہاتھ سرد ہو کر
تو اک جھناکے سے تار ٹوٹے ربابِ جاں کے
کھُلے دریچے سب آسماں کے
اور ان دریچوں سے محوِ حیرت فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ روحِ قابیل اپنی وحشت پہ ہنس رہی ہے
زمیں ندامت سے دھنس رہی ہے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ مردہ جسموں میں روحِ تازہ سمونے والے کو 
لوگ مصلوب کر رہے ہیں
گناہِ محسن کُشی سے خود کو
خدا کا معتوب کر رہے ہیں
انھوں نے دیکھا
کہ زندگی کے شجر کو بد بخت لوگ آرے سے کاٹتے ہیں
خود اپنی دیوارِ مہرباں کو سیہ زبانوں سے چاٹتے ہیں
فرشتگانِ خدا نے گھبرا کے یہ بھی دیکھا
کہ دشتِ کرب و بلا میں
شمرِ سیاہ طینت
حسیں اُجالوں کو ڈس رہا ہے
حُسین کے پاک خوں کا پیاسا
عذابِ محسوس بن کے اپنی ہی عاقبت پر برس رہا ہے
فلک کے حیرت زدہ دریچوں سے سر نکالے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ وہ جو ہر وہمٗ ہر گماں کو مٹا کے اُٹّھا
جو نسخۂ کیمیا کوٗ 
قرآں کوٗ
اپنے دل سے لگا کے اُٹّھا
اُٹھا اور اُس نے برادرانِ وطن کو اپنا سلام بھیجا
مگر جواباً
کیا گیا اُس کا شق کلیجہ
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
۔برادرانِ وطن کے پیراہنوں میں
خوشبو ہے اُس بدن کی
فضا میں اُس کے یہ آخری لفظ تیرتے ہیں
یہی اک آواز گونجتی ہے
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
یہی صدا ہے مرے سخن کی
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
شبنمؔ رومانی