اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں
جمعرات، 11 مارچ، 2021
منگل، 9 مارچ، 2021
چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal
چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal - Ahmad Faraz Shayari
چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
یہ کیا کریں کہ ہمیں ڈوبنے کی عادت ہے
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہو مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
میں کیاکہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے
تیرے نصیب میں اے دل صدا کی محرومی
نہ وہ سخی نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے
وِصال میں بھی وہی ہے فِراق کا عالم
کہ سکو نیند مجھے رَت جَگے کی عادت ہے
یہ مشکلیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں
میں نا صبُور اسے سوچنے کی عادت ہے
یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے
نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے
احمد فراز
تری امید ترا انتظار جب سے ہے - فیض احمد فیض غزل - Teri Umeed Tera Intizar Jab Se Hai - Faiz Ahmad Faiz Ghazal
Teri Umeed Tera Intizar Jab Se Hai - Faiz Ahmad Faiz Ghazal
تری امید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے،جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنےوالے
ستارہ ءِ سحری ہم کلام کب سے ہے
فیض احمد فیض
چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں - فیض احمد فیض غزل
Chalo Ab Aisa Karte Hain Sitare Bant Lete Hain - Faiz Ahmad Faiz Ghazal
چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں
ضرورت کے مطابق ہم سہارے بانٹ لیتے ہیں
محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں
اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ کر
ابھی دریا ئے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں
میری جھولی میں جتنےبھی وفا کے پھول ہیں ان کو
اکھٹے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں
محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض
اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے - احمد فراز شاعری - احمد فراز غزل - Apni Mohabbat Ke Afsane
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
رسوائی سے ڈرنے والو ، بات تمہیں پھیلاؤ گے
اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو ، تم تنہا رہ جاؤ گے
ہجر کے ماروں کی خوش فہمی ، جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یوں شب کٹ جائے گی ، جیسے تم آ جاؤ گے
زخمِ تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے
اس کا بھلانا سہل نہیں ہے ، خود کو بھی یاد آؤ گے
چھوڑ عہدِ وفا کی باتیں ، کیوں جھوٹے اِقرار کریں
کل میں بھی شرمندہ ہوں گا ، کل تم بھی پچھتاؤ گے
رہنے دو یہ پَند و نصیحت ، ہم بھی فراز سے واقِف ہیں
جس نے خود سو زخم سہے ہوں ، اس کو کیا سمجھاؤ گے
احمد فراز