اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

بدھ، 21 اکتوبر، 2015

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے ۔۔ مرثیہ امامِ عالی مقام ۔ کلام فیض احمد فیض

مرثیہ امامِ عالی مقام
کلام فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل
بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو
حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا ۔ کلام مولانا محمد علی جوہر

کلام مولانا محمد علی جوہر


بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا

ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا

روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا

جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے 
سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا

مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا

جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز 
اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا 

پیر، 19 اکتوبر، 2015

سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

سلام بحضور امام حسین علیہ اسلام کلام واصف علی واصف

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں
السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

السّلام اے داستانِ بے کسی
السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن
السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن
السّلام اے افتخارِ عارفاں

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی
السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

السّلام اے بوترابی کی دلیل
السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

السّلام اے ساجدِ بے آرزو
السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری
السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

السّلام اے مستیٔ جامِ نجف
السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں
السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت
السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی
السّلام اے معدنِ علمِ رواں

السّلام اے گوہرِ عینِ علی
دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی

سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی

سلام امام حسین علیہ اسلام کلام حسرت موہانی
امامِ برحقِ اہلِ رضا سلام علیک
شہیدِ معرکۂ کربلا سلام علیک

کلِ مرادِ ولایت حسین ابنِ علی
تتمۂ شرفِ مصطفٰی سلام علیک

ثبوت یہ ہے کہ نُورِ شہادتِ کُبرٰی
تری جبیں سے نمایاں ہوا، سلام علیک

عبث ہے اور کہیں راہِ صبر و حق کی تلاش
تری مثال ہے جب رہنما، سلام علیک

ترے طفیل مِیں، حسرت بھی ہو شہیدِ وفا
یہی دعا ہے، یہی مدّعا، سلام علیک

سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب


سلام نذرانہءِ عقیدت امام علیہ السلام از مرزا اسد اللہ خاں غالب


سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

عدو کے سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بہ قدرِ فہم ہے اگر کیمیا کہیں اُس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ ایک جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حُسنِ صبر کی داد؟
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

وہ ریگِ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آکے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانیئے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو

بدھ، 14 اکتوبر، 2015

تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوشی گیلانی کی خوبصورت نظم

تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کتنا سہل جانا تھا 
خوشبوؤں کو چھو لینا
بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر 
گھر میں قید کر لینا
روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا
کتنا سہل جانا تھا 
خوشبوؤں کو چھو لینا
جگنوؤں کی باتوں سے پھول جیسے آنگن میں
روشنی سی کرلینا
اس کی یاد کا چہرہ خوابناک آنکھوں کی
جھیل کے گلابوں پر دیر تک سجا رکھنا
کتنا سہل جانا تھا
اے نظر کی خوش فہمی ! اس طرح نہیں ہوتا 
تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے
نوشی گیلانی

پیر، 12 اکتوبر، 2015

جی میں ہے آج کی شب اس کے لیے جاگ کے کاٹی جائے ۔۔ امجد اسلام امجد کی خوبصورت آزاد نظم

جی میں ہے آج کی شب اس کے لیے جاگ کے کاٹی جائے 
وہ جو آنکھوں سے پرے 
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں بیٹھی ہے 
کیا محبت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ میں 
اسکے چہرے کو خدو خال میں لا کر دیکھوں 
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ اسکی جبیں کیسی تھیں
ہونٹ کیسے تھے، بدن کیسا تھا، آنکھیں کیسی تھیں
بس یہ یاد ہے کہ وہ جیسی نظر آتی تھی 
اس سے کہیں اچھی تھی 
یہ ماہ وسال کا طوفان بہت ظالم ہے 
وہ اگر پاس بھی ہوتی تو کسے خبر ہے کیسی ہوتی 
یوں تو ہر رات میرے دل پر گراں گزرتی ہے 
پھر بھی اے بھولے ہوئے تو ہی بتا 
غم کی زنجیر بھلا 
جاگتے ، سوچتے رہنے سے کہاں کٹتی ہے 
یہ تو آہٹ سی ابھی نکہت گل کی طرح پھیلی ہے 
تیرے قدموں کی صدا لگتی ہے 
جب کبھی کوئی جہاز یاد کی شمع لیے 
غم کی بے چین ہواؤں سے گزرتا ہے تو دل
شام فرقت کے تصور سے لرز اٹھتا ہے 
شام فرقت جو حقیقت ہے مگر خواب نما لگتی ہے 
چاند جب ابر کے ٹکروں پہ سفر کرتا ہے تو یوں لگتا ہے 
میں بھی اک ابر کا ٹکرا ہوں جسے تیرا وصل 
تیرا اک لمحہ وصل 
دائمی ہجر کے اندو ہ مسلسل کے عوض بار نہیں 
اے مجھے ابر کے ٹکرے کی طرح چھوڑ کے جانے والے 
تیرے بخشے ہوئے لمحے کے عوض 
کیا مجھے دینا پڑا اس سے سرو کار نہیں 
پانچویں سالگرہ جدائی کی آج مناؤں شب بھر 
پھر ایئر پورٹ کی ریلنگ پر ٹکا کے کہنی 
تیرے رخصت کا سماں دھیان میں لاؤں شب بھر
تو جو روتی ہوئی آنکھوں سے پرے
اجنبی دیس کی گمنام ہواؤں میں کہیں بیٹھی ہے 
( امجد اسلام امجد )

بات کرنی مجھے مشکِل کبھی ایسی تو نہ تھی . بہادر شاہ ظفر

بات کرنی مجھے مشکِل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفِل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بیقراری تجھے اے دِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کِیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائِل کبھی ایسی تو نہ تھی
عکسِ رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہِ کامِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہِ محبّت میں اٹھائی تکلیف
سخت ہوتی ہمیں منزِل کبھی ایسی تو نہ تھی
پائے کُوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آوازِ سلاسِل کبھی ایسی تو نہ تھی
نِگَہِ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل
وہ ترے حال سے غافِل کبھی ایسی تو نہ تھی
چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتِل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفر سے ہر بار
خُو تری حُورِ شمائِل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفر

اتوار، 11 اکتوبر، 2015

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے ۔ کلام پیر نصیر الدین نصیر

جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے
آج وہ رَمز آشنائے سِرِّ ھُو سجدے میں ہے

ہر نفس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے
منزلِ حق کی مجسم جستجو سجدے میں ہے

کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مصلی پر کھڑا
کیا نمازی ہے کہ بے خوف ِ عدو سجدے میں ہے

اے حسین ابن علی تجھ کو مبارک یہ عروج
آج تو اپنے خدا کے روبرو سجدے میں ہے

جانبِ کعبہ جھکا مولودِ کعبہ کا پسر
قبلہ رو ہو کر حسینِ قبلہ رو سجدے میں ہے

ابنِ زہرا اس تیری شانِ عبادت پر سلام
سر پہ قاتل آچکا ہے اور تو سجدے میں ہے

اللہ اللہ تیرا سجدہ اے شبیہ مصطفی
جیسے خود ذاتِ پیمبر ہو بہ ہو سجدے میں ہے

تھا عمل پیرا جو " كَلَّا لَا تُطِعْهُ " پر وہ آج
بن کے " وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ "کی آرزو سجدے میں ہے

یہ شرف کس کو ملا تیرے علاوہ بعدِ قتل
سر ہے نیزے کی بلندی پر ، لہو سجدے میں ہے

سر کو سجدے میں کٹا کر کہہ گیا زہرا کا لال
کچھ اگر ہے تو بشر کی آبرو سجدے میں ہے

کون جانے ، کو ن سمجھے ، کون سمجھائے نصیر
عابد و معبود کی جو گفتگو سجدے میں ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے ۔ جناب مظفر وارثی کا مشہور زمانہ نعتیہ کلام

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی 
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے 
مرا پیمبر عظیم تر ہے 

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی 
گنی نہ جائيں صفات جس کی 
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی 
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے