اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں
اتوار، 21 فروری، 2021
جمعرات، 18 فروری، 2021
جمعہ، 12 فروری، 2021
جمعہ، 26 جون، 2020
ہفتہ، 18 فروری، 2017
منگل، 1 مارچ، 2016
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ .... فیض احمد فیض كا خوبصورت كلام
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
منگل، 9 فروری، 2016
فردِ جرم .. کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی ... شبنم رومانی کی ایک خوبصورت نظم
فردِ جرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی
بکھر گئے کثرتوں کے نشتر
چپک گئے رنگ انگلیوں سے
اور اُن کے پوروں سے رسنے والے لہو نے تاریخِ درد لکھّی
نقاب پوشوں کے ننگِ انسانیت جرائم کی فرد لکھّی
گرا جو وہ ہاتھ سرد ہو کر
تو اک جھناکے سے تار ٹوٹے ربابِ جاں کے
کھُلے دریچے سب آسماں کے
اور ان دریچوں سے محوِ حیرت فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ روحِ قابیل اپنی وحشت پہ ہنس رہی ہے
زمیں ندامت سے دھنس رہی ہے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ مردہ جسموں میں روحِ تازہ سمونے والے کو
لوگ مصلوب کر رہے ہیں
گناہِ محسن کُشی سے خود کو
خدا کا معتوب کر رہے ہیں
انھوں نے دیکھا
کہ زندگی کے شجر کو بد بخت لوگ آرے سے کاٹتے ہیں
خود اپنی دیوارِ مہرباں کو سیہ زبانوں سے چاٹتے ہیں
فرشتگانِ خدا نے گھبرا کے یہ بھی دیکھا
کہ دشتِ کرب و بلا میں
شمرِ سیاہ طینت
حسیں اُجالوں کو ڈس رہا ہے
حُسین کے پاک خوں کا پیاسا
عذابِ محسوس بن کے اپنی ہی عاقبت پر برس رہا ہے
فلک کے حیرت زدہ دریچوں سے سر نکالے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ وہ جو ہر وہمٗ ہر گماں کو مٹا کے اُٹّھا
جو نسخۂ کیمیا کوٗ
قرآں کوٗ
اپنے دل سے لگا کے اُٹّھا
اُٹھا اور اُس نے برادرانِ وطن کو اپنا سلام بھیجا
مگر جواباً
کیا گیا اُس کا شق کلیجہ
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
۔برادرانِ وطن کے پیراہنوں میں
خوشبو ہے اُس بدن کی
فضا میں اُس کے یہ آخری لفظ تیرتے ہیں
یہی اک آواز گونجتی ہے
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
یہی صدا ہے مرے سخن کی
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
شبنمؔ رومانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی
بکھر گئے کثرتوں کے نشتر
چپک گئے رنگ انگلیوں سے
اور اُن کے پوروں سے رسنے والے لہو نے تاریخِ درد لکھّی
نقاب پوشوں کے ننگِ انسانیت جرائم کی فرد لکھّی
گرا جو وہ ہاتھ سرد ہو کر
تو اک جھناکے سے تار ٹوٹے ربابِ جاں کے
کھُلے دریچے سب آسماں کے
اور ان دریچوں سے محوِ حیرت فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ روحِ قابیل اپنی وحشت پہ ہنس رہی ہے
زمیں ندامت سے دھنس رہی ہے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ مردہ جسموں میں روحِ تازہ سمونے والے کو
لوگ مصلوب کر رہے ہیں
گناہِ محسن کُشی سے خود کو
خدا کا معتوب کر رہے ہیں
انھوں نے دیکھا
کہ زندگی کے شجر کو بد بخت لوگ آرے سے کاٹتے ہیں
خود اپنی دیوارِ مہرباں کو سیہ زبانوں سے چاٹتے ہیں
فرشتگانِ خدا نے گھبرا کے یہ بھی دیکھا
کہ دشتِ کرب و بلا میں
شمرِ سیاہ طینت
حسیں اُجالوں کو ڈس رہا ہے
حُسین کے پاک خوں کا پیاسا
عذابِ محسوس بن کے اپنی ہی عاقبت پر برس رہا ہے
فلک کے حیرت زدہ دریچوں سے سر نکالے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ وہ جو ہر وہمٗ ہر گماں کو مٹا کے اُٹّھا
جو نسخۂ کیمیا کوٗ
قرآں کوٗ
اپنے دل سے لگا کے اُٹّھا
اُٹھا اور اُس نے برادرانِ وطن کو اپنا سلام بھیجا
مگر جواباً
کیا گیا اُس کا شق کلیجہ
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
۔برادرانِ وطن کے پیراہنوں میں
خوشبو ہے اُس بدن کی
فضا میں اُس کے یہ آخری لفظ تیرتے ہیں
یہی اک آواز گونجتی ہے
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
یہی صدا ہے مرے سخن کی
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
شبنمؔ رومانی
منتخب غزلیں ۔ مشہور شعرا کا کلام ایک ہی جگہ پر ۔ مشہور غزلیں
دنوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ گم گزار کے
ویراں ہے میلدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض
***
اسداللہ خاں غالب
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے
جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں
ابْر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمیّد
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بَھلا کر تِرا بَھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نِثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچُھ نہیں غالب
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ گم گزار کے
ویراں ہے میلدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض
***
اسداللہ خاں غالب
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے
جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں
ابْر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمیّد
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بَھلا کر تِرا بَھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نِثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچُھ نہیں غالب
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)