اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

اتوار، 22 جولائی، 2012

محسن نقوی



محسن نقوی

گِلا نہیں کوئی تجھ سے جو تُو دکھائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ کچھ بھی مجھے سجھائی نہ دے

بُھلا دے اے میرے گھر کی اُداس رات مجھے
کہ وحشتِ سرِ صحرا مجھے رہائی نہ دے

تیرے وصال کی صبحوں کا رنگ کیا ہو گا؟
یہ سوچنے کی فراغت شبِ جدائی نہ دے

تیرا وجود اگر ہے تو اب نقاب اُٹھا
میں تھک گیا ہُوں مجھے زخمِ نارسائی نہ دے

میں جھوٹ بول رہا ہُوں کہ معتبر ٹھہروں
جو سچ کہوں تو زمانہ میری صفائی نہ دے

رگوں سے خون جو پُھوٹے تو کوئی خط لکھوں
کہ میری آنکھ تو لکھنے کو روشنائی نہ دے

میری زباں پہ تِری مصلحت کے پہرے ہیں
میرے خدا مجھے الزامِ بے نوائی نہ دے

کوئی بھی دُشمنِ جاں ہو مجھے قبول مگر
میں اپنے مصر کا یوسف ہوں مجھ کو بھائی نہ دے

سکوتِ دشت کی ہیبت ہے یا خموشیِ مرگ
خود اپنی چیخ بھی محسن مجھے سُنائی نہ دے


محسن نقوی
*****

محسن نقوی

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
*****

محسن نقوی

میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے 

بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے

ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے

بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے

مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے

یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے

اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے

قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے
 ******
اتنی مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم پھرتے ہو؟

اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو

تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟

کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟

میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو!

کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو؟

پیچھے مڑ کو کیوں دیکھا تھا
پتھر بن کر کیا تکتے ہو؟

جاؤ جیت کا جشن مناؤ
میں جھوٹا ہوں ، تم سچے ہو!

اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں الجھے ہو؟

کہنے کو رہتے ہو دل میں
پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو

رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو!

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟

محسن تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو، پھر بھی اچھے ہو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں