دیوان ِ غالبؔ سے نعتیہ اشعار کا انتخاب
1:۔ اس کی امت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بندواسطے جس شہ ﷺ کے، غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا
2:۔کل کیلئے کر آج نہ خست شراب میںیہ سوءِ ظن ہے ساقیِ کوثرﷺ کے با ب میں
3:۔ یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے!کہ غیر جلوہء گل ، رہگزر میں خاک نہیں
4:۔ بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہےغلامِ ساقیِ کوثرﷺ ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
5:۔ پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیںسر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے
6:۔ زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیاکہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے
اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں
پیر، 23 جولائی، 2012
سید واصف علی واصف Wasif Ali Wasif
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
انوار برستے رہتے ہیں، اُس پاک نگر کی راہوں میں
اِک کیف کا عالم ہوتا ہے، طیبہ کی مست ہواؤں میں
اس نامِ محمدﷺ کے صدقے، بگڑی ہوئی قسمت بنتی ہے
اُس کو بھی پناہ مل جاتی ہے، جو ڈُوب چکا ہو گناہوں میں
گیسوئے محمدﷺ کی خُوشبو، اللہ! اللہ! کیا خُوشبو ہے
احساس معطّر ہوتا ہے، واللّیل کی مہکی چھاؤں میں
وہ بانئ دِینِ مُبین بھی ہے، حٰم بھی ہے، یٰسین بھی ہے
مسکینوں میں مسکین بھی ہے، سلطانِ زمانہ شاہوں میں
سب جلوے ہیں اس صورت کے، وہ صورت ہی وجہہ اللہ ہے
اللہ نظر آ جاتا ہے، وہ صورت جب ہو نگاہوں میں
اللہ کی رحمت کے جلوے، اس وقت میسّر ہوتے ہیں
سجدے میں ہوں جب آنکھیں پُرنم اور نامِ محمدﷺ آہوں میں
اُس ناطقِ قرآں کی مِدحت، انسان کے بس کی بات نہیں
ممدوحِ خدا ہیں وہ واصف! صد شکر کہ ہم ہیں گداؤں میں
سید واصف علی واصف
اتوار، 22 جولائی، 2012
حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا ، اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے ایک گوشت کا ٹکڑا ایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصاب کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا میرے ساتھ جنت میں کون ہو گا ؟
ارشاد ہوا "فلاں قصاب تمہارے ساتھ ہو گا"
حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا ، اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے ایک گوشت کا ٹکڑا ایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصاب کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔
گھر پہنچ کر قصاب نے گوشت پکایا پھر روٹی پکا کر اسکے ٹکڑے شوربے میں نرم کیے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا ،جہاں ایک انتہائی کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ، قصاب نے بمشکل تمام اسے سہارا دیکر اٹھایا ، ایک ایک لقمہ اسکے منہ میں دیتا رہا ، جب اس نے کھانا تمام کیا تو اس نے بڑھیا کا منہ صاف کر دیا کھانا کھا کر بڈھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا ، جسے سن کر قصاب مسکرا دیا ، اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آ گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جو یہ سب دیکھ رہے تھے ، آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرا دیا ؟قصاب بولا اے اجنبی ! یہ عورت میری ماں ھے ، گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں تو خوش ہو کر روز مجھے یہ دعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھے اور میں مسکرا دیتا ہوں کہ میں کہاں اور موسیٰ کلیم اللہ کہاں.. ؟
محسن نقوی
محسن نقوی
گِلا نہیں کوئی تجھ سے جو تُو دکھائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ کچھ بھی مجھے سجھائی نہ دے
بُھلا دے اے میرے گھر کی اُداس رات مجھے
کہ وحشتِ سرِ صحرا مجھے رہائی نہ دے
تیرے وصال کی صبحوں کا رنگ کیا ہو گا؟
یہ سوچنے کی فراغت شبِ جدائی نہ دے
تیرا وجود اگر ہے تو اب نقاب اُٹھا
میں تھک گیا ہُوں مجھے زخمِ نارسائی نہ دے
میں جھوٹ بول رہا ہُوں کہ معتبر ٹھہروں
جو سچ کہوں تو زمانہ میری صفائی نہ دے
رگوں سے خون جو پُھوٹے تو کوئی خط لکھوں
کہ میری آنکھ تو لکھنے کو روشنائی نہ دے
میری زباں پہ تِری مصلحت کے پہرے ہیں
میرے خدا مجھے الزامِ بے نوائی نہ دے
کوئی بھی دُشمنِ جاں ہو مجھے قبول مگر
میں اپنے مصر کا یوسف ہوں مجھ کو بھائی نہ دے
سکوتِ دشت کی ہیبت ہے یا خموشیِ مرگ
خود اپنی چیخ بھی محسن مجھے سُنائی نہ دے
محسن نقوی
*****
محسن نقوی
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
*****
محسن نقوی
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے
ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے
مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے
یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے
اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے
بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے
قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے
محسن نقوی
محسن نقوی
*****
محسن نقوی
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
*****
محسن نقوی
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے
ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے
مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا
ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے
یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے
اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا
یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے
بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے
یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے
قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے
شاعری سچ بولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
لاکھ پردوں میں رہوں، بھید میرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زبان ڈولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرا اصرار کے چاہت میری بیتاب نہ ہو
واقف اس غم سے میرا حلقہ اے احباب نہ ہو
تو مجھے ضبط کے صحرائوں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
یہ بھی کیا بات کے چھپ چھپ کے تجھے پیار کروں
گر کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو میں انکار کروں
جب کسی بات کو دنیا کی نظر ٹٹولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے اس فکر میں کاٹی کئی راتیں کئی دن
میرے شعروں میں تیرا نام نہ آئے لیکن
جب تیری سانس میری سانس میں رس گھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرے جلووں کا ہے پرت میری اک اک غزل
تو میرے جسم کا سایا ہے تو کترا کے نہ چل
پردہ داری تو خود اپنا ہی بھرم کھولتی ہے
ایسا نہیں ہونے دینا : احمد فراز
احمد فراز
ایسا نہیں ہونے دینا :
میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے
میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی باتیں
نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح
پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی وِداع
صندلی پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی
ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا ندیم
نوکِ دشتاں سے کھنچی تھی میری مٹی کی لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو
کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو : ناصر کاظمی
ناصر کاظمی
یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو : ناصر کاظمی
یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو
وہ آئیں نہ آئیں، مگر امید نہ ہارو
شاید کسی منزل سے کوئی قافلہ آۓ
آشفتہ سرو صبح تلک یوں ہی پکارو
دن بھر تو چلے اب ذرا دم لے کے چلیں گے
اے ہم سفرو آج یہیں رات گزارو
یہ عالمِ وحشت ہے تو کچھ ہو کے رہے گا
منزل نہ سہی، سر کسی دیوار سے مارو
اوجھل ہوۓ جاتے ہیں نگاہوں سے دو عالم
تم آج کہاں ہو غمِ فرقت کے سہارو
کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سُنے، لاکھ پکارو!!
***
آج تو بے سبب اداس ہے جی : ناصر کاظمی
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی
ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی
آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی
اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
نــاصـر کـاظـمی
آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگیء شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاوں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردہء سکوت
لیکن کسے سناوں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاوس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
یہ بات مگر کون سُنے، لاکھ پکارو!!
***
آج تو بے سبب اداس ہے جی : ناصر کاظمی
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی
ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی
آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی
اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
نــاصـر کـاظـمی
آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگیء شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاوں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردہء سکوت
لیکن کسے سناوں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاوس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی
ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی
آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی
اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
نــاصـر کـاظـمی
آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگیء شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاوں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردہء سکوت
لیکن کسے سناوں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاوس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
پیر نصیرالدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ
یوں نگاہوں نے کیا گنبد خضر'ی کا طواف
روشنی کرتی ہے جیسے مہ و اختر کا طواف
مدحت شاہ کی خوشبو کہیں پالے شاید
چاندنی کرتی ہے اس شوق میں گھر گھر کا طواف
ان کا بیمار ہوں . جو سب کے مسیحا ٹھہرے
اے اجل ! سوچ سمجھ کر مرے بستر کا طواف
منہ کے بل لات و ہبل گر پڑے ان کے آگے
ختم کعبے میں ہے ترشے ہوئے پتھر کا طواف
خیر سے ان کی گزر گاہ میں ہے گھر میرا
چاندنی کیوں نہ کرے آ کے مرے گھر کا طواف
اس کو عقبیٰ میں ہے جنت کی بشارت برحق
جس کو دنیا میں میسر ہو ترے در کا طواف
آہی پہنچے گا در یار پہ گرتے پڑتے
جس کی تقدیر میں ہے کوچہ دلبر کا طواف
کوں چاہے گا سر حشر نہ اپنی بخشش
کیوں نگاہیں نہ کریں شافع محشر کا طواف
حاضری در پہ بھی ہو ، محور دل بھی وہ رہیں
ایک باہر کی زیارت ہے ، اک اندر کا طواف
کعبہ فقر و غنا اہل جہاں میں ہے نصیر
آ کے سلطان کریں ان کے گدا گر کا طواف
صلواعلی الحبیب
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
****
اب تنگی دامان پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ،
مدحت شاہ کی خوشبو کہیں پالے شاید
چاندنی کرتی ہے اس شوق میں گھر گھر کا طواف
ان کا بیمار ہوں . جو سب کے مسیحا ٹھہرے
اے اجل ! سوچ سمجھ کر مرے بستر کا طواف
منہ کے بل لات و ہبل گر پڑے ان کے آگے
ختم کعبے میں ہے ترشے ہوئے پتھر کا طواف
خیر سے ان کی گزر گاہ میں ہے گھر میرا
چاندنی کیوں نہ کرے آ کے مرے گھر کا طواف
اس کو عقبیٰ میں ہے جنت کی بشارت برحق
جس کو دنیا میں میسر ہو ترے در کا طواف
آہی پہنچے گا در یار پہ گرتے پڑتے
جس کی تقدیر میں ہے کوچہ دلبر کا طواف
کوں چاہے گا سر حشر نہ اپنی بخشش
کیوں نگاہیں نہ کریں شافع محشر کا طواف
حاضری در پہ بھی ہو ، محور دل بھی وہ رہیں
ایک باہر کی زیارت ہے ، اک اندر کا طواف
کعبہ فقر و غنا اہل جہاں میں ہے نصیر
آ کے سلطان کریں ان کے گدا گر کا طواف
صلواعلی الحبیب
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
****
ہیں آج وہ مائل بہ عطا اور بھی کچھ مانگ.
ہیں وہ متوجہ' تو دعا اور بھی کچھ مانگ،
جو کچھ تجھے ملنا تھا ملا' اور بھی کچھ مانگ.
ہر چند کے مولا نے بھرا ہے تیرا کشکول
کم ظرف نہ بن ہاتھ بڑھا' اور بھی کچھ مانگ.
چھو کر ابھی آی ہے سر زلف محمّد
کیا چاہیے اے باد صبا اور بھی کچھ مانگ.
یا سرور دیں' شاہ عرب' رحمت عالم
دے کر تہ دل سے یہ صدا اور بھی کچھ مانگ.
سرکار کا در ہے در شاہاں تو نہیں ہے
جو مانگ لیا مانگ لیا اور بھی کچھ مانگ.
جن لوگوں کو یہ شک ہے کرم ان کا
ہے محدود
ان لوگوں کی باتوں پے نہ جا اور بھی کچھ مانگ.
اس در پے یہ انجام ہوا حسن طلب کا
جھولی میری بھر بھر کے کہا اور بھی کچھ مانگ.
سلطان مدینہ کی زیارت کی دعا کر
جنت کی طلب چیز ہے کیا اور بھی کچھ مانگ.
دے سکتے ہیں کیا کچھ کے وہ کچھ دے نہیں سکتے
یہ بحث نہ کر ہوش میں آ اور بھی کچھ مانگ
مانا کے اسی در سے غنی ہو کے اٹھا ہے
پھر بھی در سرکار پے جا اور بھی کچھ مانگ.
پہنچا ہے جو اس در پے تو رہ رہ کے نصیر آج
آواز پے آواز لگا اور بھی کچھ مانگ. —
پیر نصیرالدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ
سوئے گلشن ۔۔۔۔۔ وہ تیرا گھر سے خراماں ہونا
سرو کا جھومنا ۔۔۔۔۔ غنچوں کا غزلخواں ہونا
خوبرو گرچہ ہوئے اور بھی لاکھوں ۔۔۔۔۔۔ لیکن
تجھ سے مخصوص رہا ۔۔۔۔۔۔ خسرو خوباں ہونا
زندگی بھر کی تمناؤں کا ٹھہرا حاصل
سامنے تیرے میرا خاک میں ۔۔۔۔۔ پنہاں ہونا
یہ تو اندر کا میرے درد ہے ۔۔۔۔۔ دکھ ہے ۔۔۔۔۔ غم ہے
میرے رونے پہ کہیں تم نہ ۔۔۔۔۔۔ پریشاں ہونا
واعظِ شہر کی تقدیر میں ۔۔۔۔۔ یارب جنت
میری قسمت میں ہو ۔۔۔۔۔ خاکِ درِ جاناں ہونا
گھر میں وہ آئے ۔۔۔۔۔۔ نہیں پاس کچھ اشکوں کے سوا
آج محسوس ہوا ۔۔۔۔۔۔ بے سرو ساماں ہونا
خاک سے ہو کے ۔۔۔۔۔۔ میرا خاک میں جانا ۔۔۔۔۔۔ مر کر
اپنے ہی گھر میں ہو جیسے ۔۔۔۔۔۔ میرا مہماں ہونا
تم نے دریا ہی کو دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ اُٹھاتے طوفاں
آج دیکھو ۔۔۔۔۔ کسی قطرے کا بھی طوفاں ہونا
جب لحد میں مجھے رکھیں ۔۔۔۔۔۔ تو خدارا تم بھی
جلوہ فرما بہ سرِ گورِ غریباں ہونا
جتنا مشکل ہے ۔۔۔۔۔ کسی اور کو کرنا تسلیم
اتنا مشکل نہیں ۔۔۔۔۔ کافر کا مسلماں ہونا
دے جو شاہی تجھے آواز تو مت بھول ۔۔۔۔۔ نصیر
اس سے بہتر ہے ۔۔۔۔۔ گدائے شہ جیلاں ہونا
سید نصیر الدین نصیر
پیر، 16 جولائی، 2012
فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک انتہائی مشہور اور معروف غزل
فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک انتہائی مشہور اور معروف غزل
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہےرنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانےتو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھآج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسمخاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے اندازوہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخیتو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمناس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیںایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سےاس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)