اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

ہفتہ، 6 فروری، 2016

درد کم ہونے لگا، آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے . ناصر کاظمی

درد کم ہونے لگا، آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

یوں تو تم روشنیِ قلب و نظر ہو لیکن ــــــ
آج وہ معجزہ دِکھلاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اسی بے درد کو لے آؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

میں بھی بیکار ہوں ـــــ اور تم بھی ہو ویران بہت
دوســـــــتو ! آج نہ گھر جاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے

چھوڑ آئے ہو سرِ شام اسے کیوں ناصرؔ
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ ــ کہ کچھ رات کٹے
ناصر کاظمی

منگل، 2 فروری، 2016

تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا ۔ مرزا غالب


تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا 
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا 
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے 
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا 
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے 
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا 
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم 
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا 
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں 
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا 
دریائے معاصی تُنک آبی سے ہوا خشک 
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا 
جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مری تحصیل 
آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا

وہ فراق اور وہ وصال کہاں ۔ مرزا غالب




وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں​

فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں​

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں​

تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں​

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌ طاقت، جگر میں حال کہاں​

ہم سے چُھوٹا قمار خانۂ عشق 
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں​

فکرِ دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں​

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں​

اسد الله خاں غالب​

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​۔ مرزا غالب




یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​

تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا​
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا​

تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا​
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا​

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو​
یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا​

یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح​
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا​

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا​
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا​

غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے​
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا​

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے​
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا​

ہوئے مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا ​
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا​

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا​
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی توکہیں دوچار ہوتا​

یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترا بیان، غالبؔ​
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا​

مرزا اسداللہ خاں غالب​

ہفتہ، 23 جنوری، 2016

افتخار عارف کی خوبصورت غزل ۔۔۔ ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں


قابل اجمیری کی خوبصورت غزل ۔۔۔۔ تم نہ مانو مگر ، حقیقت ہے




تم نہ مانو مگر ، حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے

کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیامت ہے

میرے محبوب مجھ سے جُھوٹ نہ بول
جُھوٹ ــ صورت گرِ صداقت ہے

جی رہا ہوں ـ ـ اِس اعتماد کیساتھ
زندگی کو ـــ میری ضرورت ہے

حُسن ہی حسن ـ ـ جلوے ہی جلوے
صرف ـــ احساس کی ضرورت ہے

اُن کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب ـــ در و بام سے ندامت ہے

اُسکی محفل میں ـ ـ بیٹھ کر دیکھو
زندگی ـــ کتنی خوبصورت ہے

راستہ کٹ ہی جائے گا قابلؔ
شوقِ منزل ـــ اگر سلامت ہے

شاعر: قابل اجمیریؔ

داغ دہلوی کی خوبصورت غزل ۔۔ لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے




لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے
سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغ دہلوی

احمد فراز کی ایک خوبصورت نظم ۔۔۔۔ یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں




یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تیری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اُداس تنہائیوں کے لمحوں میں
ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے میں مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہِ سوزاں گھٹا بنی ہے
اور ابیہ ساری متاعِ ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روزوشب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر وہ تیرا مغنی
وہ جسکی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جسکے جینے کی خواہشیں بھی
خوداسکے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اسکا کہ وہ دیوانہ
بہت دنوں سے اُجڑ چکا ہے
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑچکا ہے
وہ تھک چکاتھا اور اسکا تیشہ
اُسی کے سینے میں گڑچکا ہے
(احمد فراز)

اتوار، 17 جنوری، 2016

وہ بات جو آپ کو کبھی نہ بھولے


قسم کھاتا ہوں اے کوہِ الم! دستِ زلیخا کی ۔ جوش ملیح آبادی


اگر انسان ہوں، دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا
میں ہر ناچیز ذرّے کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا

تری اِس اُلفت کی سوگند، اے لیلائے رنگینی
کہ ارضِ خار و خس کو سُنبلستاں کر کے چھوڑوں گا

وہ پنہاں قوّتیں جو مِل کے زک دیتی ہیں دُنیا کو
اُنہیں آپس ہی میں دست و گریباں کر کے چھوڑوں گا

سرِ تقلید کو مغزِ تفکر سے جِلا دے کر
چراغِ مردہ کو مہرِ درخشاں کر کے چھوڑوں گا

شعارِ تازہ کو بخشوں گا آب و رنگِ جمیعت
رسوم کُہنہ کی محفل کو ویراں کر کے چھوڑوں گا

چراغِ اجتہادِ نَو بہ نَو کی جلوہ ریزی سے
سرِ راہِ خرد مندی چراغاں کر کے چھوڑوں گا

مُسلطّ ہیں ازل کے روز سے جو ابنِ آدم پر
میں اُن اوہام کو سردر گریباں کر کے چھوڑوں گا

ترے اس پیچ و خم کھاتے دُھویں کو شمع حق بینی
فرازِ عقل پر ابرِ خراماں کر کے چھوڑوں گا

جو انساں، آج سنگ و خشت کو معبود کہتا ہے
اُس انساں کو الوہیت بداماں کر کے چھوڑوں گا

قناعت جس نے کر لی ہے عناصر کی غلامی پر
میں اُس کو کِرد گارِ بادوباراں کر کے چھوڑوں گا

قسم کھاتا ہوں اے کوہِ الم! دستِ زلیخا کی
کہ داماں کو ترے یوسف کا داماں کر کے چھوڑوں گا

پکاروں گا کلیم نو کو طُورِ عصرِ حاضر سے
جو کچھ کہہ دوں گا اُس کو دین و ایماں کر کے چھوڑوں گا

مری حکمت، بشر کو دعوتِ نَو دے کے دم لے گی
میں اِس بھٹکے ہوئے انساں کو انساں کر کے چھوڑوں گا

اگر یہ کُفر ہے جو کچھ زباں پر میری جاری ہے
تو میں اِس کفر کو گلبانگِ عرفاں کر کے چھوڑوں گا

اگر عصیاں ہی پر موقوف ہے انساں کی بیداری
تو میں دُنیا کو غرقِ بحرِ عصیاں کر کے چھوڑوں گا​