اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

منگل، 2 فروری، 2016

تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا ۔ مرزا غالب


تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا 
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا 
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے 
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا 
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے 
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا 
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم 
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا 
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں 
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا 
دریائے معاصی تُنک آبی سے ہوا خشک 
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا 
جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مری تحصیل 
آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں