اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

پیر، 8 فروری، 2016

وہ صبح کبھی تو آئے گی .... ساحر لدھیانوی . Sahir Ludhiayanvi


وہ صبح کبھی تو آئے گی ......... ساحر لدھیانوی
ان کالی صدیوں کے سر جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سُکھ کا ساگر جھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمہ گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جُگ جُگ سے ہم سب مر مر کے جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دُھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کُچلا جائے گا، عزت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بےکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بُت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سُونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سُولی نہ چڑھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انسان نہ جلائے جائیں گے
سینے کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا جب سورگ بنائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا . افتخار عارف ۔ Iftekhar arif

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا
گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئ تو کیا

غارتِ گریِ شہر میں شامل ہے کون کون
یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئ تو کیا

اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اِک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئ تو کیا

میثاقِ اعتبارمیں تھی اِک وفا کی شرط
اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئ تو کیا

قانونِ باغبانیِ صحرا کی سرنوشت
لکھی گئ تو کیا جو نہ لکھی گئ تو کیا

اس قحط و انہدامِ راویتِ کے عہد میں
تالیفِ نسخہ ہاے وفا کی گئ تو کیا

جب میر و میرزا کے سخن رائیگاں گئے
اِک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئ تو کیا

ہفتہ، 6 فروری، 2016

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں ۔ فیض احمد فیض

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں

ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

رقصِ مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں، مائل بہ کرم آتے ہیں

اور کچھ دیر گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں
فیض احمد فیض

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا ۔ جگر مراد آبادی

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا

نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

جگر مرادآبادی

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے ۔ ساغر صدیقی

نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے

وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگا ہوں میں بار سا ہے

کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے

چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے

یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے

ساغر صدیقی

اس نہیں کا کوئ علاج نہیں ۔ داغ دہلوی

اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں
کل جو تها آج وہ مزاج نہیں
اس تلوان کا کچھ علاج نہیں
کهوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹهرا
در ہم داغ کا رواج نہیں
دل لگی کیجئے رقیبوں سے
اس طرح کا مرا مزاج نہیں
عشق ہے بادشاہ عالم گیر
گر چہ ظاہر میں تخت و تاج نہیں
حور سے پوچھتا ہوں جنت میں
اس جگہ کیا بتوں کا راج نہیں
صبر بھی دل کو داغ دے لیں گے
ابھی کچھ اس کی احتیاج نہیں
داغ دہلوی

کچھ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے ۔ جگر مراد آبادی

کچھ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے

یا رب کسی کی راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نه رہے، آستیں رہے

درد غــم فـــراق کے یه سخت مــرحلیں
حیراں ہوں میں که پهر بهی تم اتنے حسیں رہے

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے

الله رے چشم یار کے موجز بیانیاں
ہر ایک کا ہے گمان که مخاطب ہمیں رہے

اس عشق کے تلافی مافات دیکهنا
رونے کے حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے

ایمان و کفر اور نه دنیا و دین رہے
اے عشق شادباش که تنها ہمیں رہے

جگر مرادآبای


Kuch Is Ada Se Aaj Wo Pehlo Nasheen Rahe - Jigar moradabadi


ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے ۔ عبید اللہ علیم

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے

جب ہے یہ خانہ ء دل آپکی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں ، کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
عبید اللہ علیم

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں​ ۔ عبد المجید عدم

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں​
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں​

تیری محفل میں بیٹھنے والے​
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں​

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے​
راستے میں فقیر ہوتے ہیں​

زندگی کے حسین ترکش میں​
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں​

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں​
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں​

دیکھنے والا اک نہیں ملتا​
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں​

جن کو دولت حقیر لگتی ہے​
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں​

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو​
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں​

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن​
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں​

اے عدم احتیاط لوگوں سے​
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں​

عبدالحمید عدم​

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا - جوش ملیح آبادی غزل

جوش ملیح آبادی

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وە کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوە
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے سونے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اسکا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اسکا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا معصوم ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا ؟

میری ہر سانس ہے اس بات کی شاھد اے موت
میں نے ہر لطف کے موقعہ پہ تجھے یاد کیا

مجھکو تو ہوش نہیں تجھ کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تو نے مجھے برباد کیا

وە تجھے یاد کرے جس نے بھلایا ہو تجھے
ہم نے تجھ کو بھلایا نہ کبھی یاد کیا

کچھ نہیں اس کے سوا جوش حریفوں کا کلام
وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا