اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

منگل، 9 فروری، 2016

منتخب غزلیں ۔ مشہور شعرا کا کلام ایک ہی جگہ پر ۔ مشہور غزلیں

دنوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ گم گزار کے
ویراں ہے میلدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض
***
اسداللہ خاں غالب ​

دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے​
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے​

ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار​
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے​

میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں​
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے​

جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود​
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے​

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں​
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے​

سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں​
ابْر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے​

ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمیّد​
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے​

ہاں بَھلا کر تِرا بَھلا ہو گا​
اور درویش کی صدا کیا ہے​

جان تم پر نِثار کرتا ہوں​
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے​

میں نے مانا کہ کچُھ نہیں غالب​
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے

پیر، 8 فروری، 2016

دیارِ نور میں تیِرہ شبوں کا ساتھی ہو ۔ افتخار عارف

دیارِ نور میں تیِرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اُس سے جھوٹ بھی بولو ں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ میرے نام کی نِسبت سے مُعتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رُسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو!

وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے ۔۔۔ افتخار عارف

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے
شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے

شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا
کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے

بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے

کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے
کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے

کھیل تماشا بربادی پر ختم ہوا
ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے

کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں
بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے

ابھی گیا ہے کوئی مگر یوں لگتا ہے
جیسے صدیاں بیتیں گھر خاموش ہوئے

سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں ۔۔۔ ساحر لدھیانوی

ساحر لدھیانوی
سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں
دل کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں
سوچتا ہوں کہ محبتہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعیِ موہوم
سوچتا ہوں کہ محبت ہے سرور و مستی
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں
سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگاہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی
سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اِک کارِ زبوں
سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش از وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہء اَلفت ہو کر
اپنے سینے میں کروں جذبہء نفرت کی تلاش
سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
خود کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ۔ ساحر لدھیانوی کا ایک خوبصورت گیت

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں 
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے 
کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں
یہ گیسوئوں کی گھنی چھاؤں ہیں میری خاطر 
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں
کے جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں 
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی 
کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی
میں جانتا ہوں تو غیر ہے مگر یوں ہی 
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے . . . !
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے (اصل نظم)
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہیں حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پرہول خارزاروں میں
نہ کوئی جادہء منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاوں میں زندگی میری
انہی خلاوں میں رہ جاوں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں کہ مری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو .. ساحر لدھیانوی

ساحر لدھیانوی
سب میں شامل ہو مگر سب سے جدا لگتی ہو
صرف ہم سے نہیں خود سے بھی خفا لگتی ہو
آنکھ اٹھتی ہے نہ جھکتی ہے کسی کی خاطر 
جو کسی در پہ نہ ٹھہرے وہ ہوا لگتی ہو
زلفلہرائے تو آنچل میں چھپا لیتی ہو
ہونٹ تھرائیں تو دانتوں میں دبا لیتی ہو
جو کبھی کھل کے نہ برسے وہ گھٹا لگتی ہو
جاگی جاگی بظرآتی ہو نہ سوئی سوئی
تم کہ ہو اپنے خیالات میں کھوئی کھوئی
کسی مایوس مصور کی دعا لگتی ہو -

وہ صبح کبھی تو آئے گی .... ساحر لدھیانوی . Sahir Ludhiayanvi


وہ صبح کبھی تو آئے گی ......... ساحر لدھیانوی
ان کالی صدیوں کے سر جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سُکھ کا ساگر جھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمہ گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جُگ جُگ سے ہم سب مر مر کے جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دُھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کُچلا جائے گا، عزت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بےکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بُت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سُونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سُولی نہ چڑھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انسان نہ جلائے جائیں گے
سینے کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا جب سورگ بنائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا . افتخار عارف ۔ Iftekhar arif

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئ تو کیا
گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئ تو کیا

غارتِ گریِ شہر میں شامل ہے کون کون
یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئ تو کیا

اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اِک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئ تو کیا

میثاقِ اعتبارمیں تھی اِک وفا کی شرط
اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئ تو کیا

قانونِ باغبانیِ صحرا کی سرنوشت
لکھی گئ تو کیا جو نہ لکھی گئ تو کیا

اس قحط و انہدامِ راویتِ کے عہد میں
تالیفِ نسخہ ہاے وفا کی گئ تو کیا

جب میر و میرزا کے سخن رائیگاں گئے
اِک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئ تو کیا

ہفتہ، 6 فروری، 2016

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں ۔ فیض احمد فیض

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں

ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

رقصِ مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں، مائل بہ کرم آتے ہیں

اور کچھ دیر گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں
فیض احمد فیض

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا ۔ جگر مراد آبادی

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا

نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

جگر مرادآبادی