اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں

ہفتہ، 13 اپریل، 2024

Koi Umeed Bar Nahi Aati . Mirza Ghalib Ghazal

کوئی امید بھر نہیں آتی ۔ مرزا غالب غزل

کوئی امید  بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ھے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزل 

بدھ، 22 نومبر، 2023

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ - ناصر کاظمی کی غزل

 غزل ناصر کاظمی

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ


بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر

ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ


خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم

وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ


نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یونہی ذرا کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ


کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دورِ آسماں بھی

جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ


بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ


شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ


مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی

جو نالہ اٹھا تھا رات دِل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ


وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا

یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ


وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ


وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا

تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ


وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر

تری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ


کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں - ناصر کاظمی کی غزل


 غزل ناصر کاظمی

کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں


یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر

سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں


رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو

تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی چلیں


یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں


اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

ناصر کاظمی


کل جنہیں زندگی تھی راس بہت - ناصر کاظمی کی غزل

Kal jinhain Zindagi Thi Raas Buhat . Nasir Kazmi Ghazal 

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

آج دیکھا انہیں‌اداس بہت


رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا

اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت


کیوں نہ روؤں تری جدائی میں

دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت


چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی

ہے غریبی میں یہ لباس بہت


وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ

ہے یہاں درد کی اُگاس بہت


سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر

یاد آتی ہے گل کی باس بہت

ناصر کاظمی


جمعہ، 19 مئی، 2023

ناصر کاظمی کی غزل ۔ تو ہے یا تیرا سایا ہے

تو ہے یا تیرا سایا ہے

بھیس جدائی نے بدلا ہے


دل کی حویلی پر مدت سے

خاموشی کا قفل پڑا ہے


چیخ رہے ہیں خالی کمرے

شام سے کتنی تیز ہوا ہے


دروازے سر پھوڑ رہے ہیں

کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے


تنہائی کو کیسے چھوڑوں

برسوں میں ایک یار ملا ہے


رات اندھیری ناو ساتھی

رستے میں دریا پڑتا ہے


ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصر

آج کسی نے یاد کیا ہے


احمد فراز کی خوبصورت غزل شاعری ۔ چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

Chalo Woh Ishq Nahi . Ahmad Faraz Ghazal 

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

پہ کیا کریں ہمیں‌ اک دوسرے کی عادت ہے

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع

میں آئینہ ہوں‌ مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا

میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے

ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی

نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے

وصال میں‌ بھی وہی ہے فراق کا عالم

کہ اسکو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے

یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں

میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے

نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

بدھ، 17 مئی، 2023

محبت اب نہیں ہوگی ۔ منیر نیازی کی شاعری

Mohabbat Ab Nahi Hogi . Munir Niazi

ستارے جو چمکتے ہیں کسی کی چشم حیراں میں

ملاقاتیں جو ہوتی ہیں جمالِ ابرو باراں میں

یہ نا آباد وقتوں میں دلِ ناشاد میں ہوگی

محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائٰیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہو گی

منیر نیازی کی شاعری

بدھ، 17 مارچ، 2021

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں / آحمد فراز رومانوی غزل


suna hai log use aankh bhar ke dekhte hain - Ahmad Faraz Love Ghazal

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ھے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں

سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف

سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہگ ہے چشم ناز اُس کی

سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں

سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے

سو اس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے

ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی

سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت

مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی

جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں

پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں

چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا

سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں

فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

Faraz Ahmad Faraz

منگل، 9 مارچ، 2021

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے / احمد فراز غزل Chalo Woh Ishq Nahi Chahne Ki Aadat Hai - Ahmad Faraz Ghazal - Ahmad Faraz Shayari

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

یہ کیا کریں کہ ہمیں ڈوبنے کی عادت ہے


تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع

میں آئینہ ہو مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے


میں کیاکہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا

میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے


تیرے نصیب میں اے دل صدا کی محرومی

نہ وہ سخی نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے


وِصال میں بھی وہی ہے فِراق کا عالم

کہ سکو نیند مجھے رَت جَگے کی عادت ہے


یہ مشکلیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں

میں نا صبُور اسے سوچنے کی عادت ہے


یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے

نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے

احمد فراز