اپنی پسند کی شاعری تلاش کریں
جمعہ، 26 جون، 2020
ہفتہ، 18 فروری، 2017
منگل، 1 مارچ، 2016
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ .... فیض احمد فیض كا خوبصورت كلام
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
منگل، 9 فروری، 2016
فردِ جرم .. کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی ... شبنم رومانی کی ایک خوبصورت نظم
فردِ جرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی
بکھر گئے کثرتوں کے نشتر
چپک گئے رنگ انگلیوں سے
اور اُن کے پوروں سے رسنے والے لہو نے تاریخِ درد لکھّی
نقاب پوشوں کے ننگِ انسانیت جرائم کی فرد لکھّی
گرا جو وہ ہاتھ سرد ہو کر
تو اک جھناکے سے تار ٹوٹے ربابِ جاں کے
کھُلے دریچے سب آسماں کے
اور ان دریچوں سے محوِ حیرت فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ روحِ قابیل اپنی وحشت پہ ہنس رہی ہے
زمیں ندامت سے دھنس رہی ہے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ مردہ جسموں میں روحِ تازہ سمونے والے کو
لوگ مصلوب کر رہے ہیں
گناہِ محسن کُشی سے خود کو
خدا کا معتوب کر رہے ہیں
انھوں نے دیکھا
کہ زندگی کے شجر کو بد بخت لوگ آرے سے کاٹتے ہیں
خود اپنی دیوارِ مہرباں کو سیہ زبانوں سے چاٹتے ہیں
فرشتگانِ خدا نے گھبرا کے یہ بھی دیکھا
کہ دشتِ کرب و بلا میں
شمرِ سیاہ طینت
حسیں اُجالوں کو ڈس رہا ہے
حُسین کے پاک خوں کا پیاسا
عذابِ محسوس بن کے اپنی ہی عاقبت پر برس رہا ہے
فلک کے حیرت زدہ دریچوں سے سر نکالے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ وہ جو ہر وہمٗ ہر گماں کو مٹا کے اُٹّھا
جو نسخۂ کیمیا کوٗ
قرآں کوٗ
اپنے دل سے لگا کے اُٹّھا
اُٹھا اور اُس نے برادرانِ وطن کو اپنا سلام بھیجا
مگر جواباً
کیا گیا اُس کا شق کلیجہ
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
۔برادرانِ وطن کے پیراہنوں میں
خوشبو ہے اُس بدن کی
فضا میں اُس کے یہ آخری لفظ تیرتے ہیں
یہی اک آواز گونجتی ہے
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
یہی صدا ہے مرے سخن کی
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
شبنمؔ رومانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلی جو وحدت کی بند مٹُھی
بکھر گئے کثرتوں کے نشتر
چپک گئے رنگ انگلیوں سے
اور اُن کے پوروں سے رسنے والے لہو نے تاریخِ درد لکھّی
نقاب پوشوں کے ننگِ انسانیت جرائم کی فرد لکھّی
گرا جو وہ ہاتھ سرد ہو کر
تو اک جھناکے سے تار ٹوٹے ربابِ جاں کے
کھُلے دریچے سب آسماں کے
اور ان دریچوں سے محوِ حیرت فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ روحِ قابیل اپنی وحشت پہ ہنس رہی ہے
زمیں ندامت سے دھنس رہی ہے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ مردہ جسموں میں روحِ تازہ سمونے والے کو
لوگ مصلوب کر رہے ہیں
گناہِ محسن کُشی سے خود کو
خدا کا معتوب کر رہے ہیں
انھوں نے دیکھا
کہ زندگی کے شجر کو بد بخت لوگ آرے سے کاٹتے ہیں
خود اپنی دیوارِ مہرباں کو سیہ زبانوں سے چاٹتے ہیں
فرشتگانِ خدا نے گھبرا کے یہ بھی دیکھا
کہ دشتِ کرب و بلا میں
شمرِ سیاہ طینت
حسیں اُجالوں کو ڈس رہا ہے
حُسین کے پاک خوں کا پیاسا
عذابِ محسوس بن کے اپنی ہی عاقبت پر برس رہا ہے
فلک کے حیرت زدہ دریچوں سے سر نکالے
فرشتگانِ خدا نے دیکھا
کہ وہ جو ہر وہمٗ ہر گماں کو مٹا کے اُٹّھا
جو نسخۂ کیمیا کوٗ
قرآں کوٗ
اپنے دل سے لگا کے اُٹّھا
اُٹھا اور اُس نے برادرانِ وطن کو اپنا سلام بھیجا
مگر جواباً
کیا گیا اُس کا شق کلیجہ
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
۔برادرانِ وطن کے پیراہنوں میں
خوشبو ہے اُس بدن کی
فضا میں اُس کے یہ آخری لفظ تیرتے ہیں
یہی اک آواز گونجتی ہے
قسم مجھے اُس کے بانکپن کی
یہی صدا ہے مرے سخن کی
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
۔خدا حفاظت کرے وطن کی۔
شبنمؔ رومانی
منتخب غزلیں ۔ مشہور شعرا کا کلام ایک ہی جگہ پر ۔ مشہور غزلیں
دنوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ گم گزار کے
ویراں ہے میلدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض
***
اسداللہ خاں غالب
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے
جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں
ابْر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمیّد
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بَھلا کر تِرا بَھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نِثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچُھ نہیں غالب
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ گم گزار کے
ویراں ہے میلدہ ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی ، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض
***
اسداللہ خاں غالب
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے
جب کہ تُجھ بِن نہیں کوئی موجُود
پھر یہ ہنگامہ، اے خُدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ وعشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گُل کہاں سے آئے ہیں
ابْر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمیّد
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بَھلا کر تِرا بَھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نِثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دُعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچُھ نہیں غالب
مُفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
پیر، 8 فروری، 2016
دیارِ نور میں تیِرہ شبوں کا ساتھی ہو ۔ افتخار عارف
دیارِ نور میں تیِرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اُس سے جھوٹ بھی بولو ں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نِسبت سے مُعتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رُسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو!
وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اُس سے جھوٹ بھی بولو ں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو مری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نِسبت سے مُعتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رُسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو!
وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو
دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے ۔۔۔ افتخار عارف
دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے
شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے
شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا
کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے
بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے
کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے
کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے
کھیل تماشا بربادی پر ختم ہوا
ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے
کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں
بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے
ابھی گیا ہے کوئی مگر یوں لگتا ہے
جیسے صدیاں بیتیں گھر خاموش ہوئے
شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے
شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا
کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے
بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے
کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے
کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے
کھیل تماشا بربادی پر ختم ہوا
ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے
کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں
بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے
ابھی گیا ہے کوئی مگر یوں لگتا ہے
جیسے صدیاں بیتیں گھر خاموش ہوئے
سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں ۔۔۔ ساحر لدھیانوی
ساحر لدھیانوی
سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں
دل کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں
سوچتا ہوں کہ محبتہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعیِ موہوم
سوچتا ہوں کہ محبت ہے سرور و مستی
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں
سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگاہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی
سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اِک کارِ زبوں
سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش از وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہء اَلفت ہو کر
اپنے سینے میں کروں جذبہء نفرت کی تلاش
سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
خود کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں
سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں
دل کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں
سوچتا ہوں کہ محبتہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعیِ موہوم
سوچتا ہوں کہ محبت ہے سرور و مستی
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں
سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگاہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی
سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اِک کارِ زبوں
سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش از وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہء اَلفت ہو کر
اپنے سینے میں کروں جذبہء نفرت کی تلاش
سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
خود کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)